تعلیم کو عام کریں

تحریر:اسامہ چودھری
پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا انیس ملین بچے مزدوروں کے طور پہ کام کررہے ہیں، جو کہ تعلیم سے محروم ہیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ناقابل قبول ہے کیوں کہ پاکستان پالیسی کا اصول آزاد تعلیم فراہم کرنا اور بے روزگار ملک سے نجات دینا ہے۔بہت سے معاملات میں مزدور بچوں کے والدین تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے یا ان کے نزدیک تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ دیہاتی علاقے جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے وہاں تعلیم کی اہمیت کم ہوتی ہے اور والدین بچوں کے تعلیمی اخراجات کی عدم برداشت کی وجہ سے بچوں کو کسی ورکشاپ،بھٹے یا کسی موٹر سائیکل مکینک کے پاس کام کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔جس کا فائدہ ان کو یہ ہوتا ہے کہ بچہ کام سیکھنے کے ساتھ ساتھ چند پیسے بھی ساتھ ساتھ کماتارہتا ہے جس سے والدین پر سے اخراجات کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اور ان کو وقتی طور پہ آسانی محسوس ہوتی ہے۔اس طرح سے ایسے والدین اور بچوں کا تعلیم کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا جس کی وجہ سے بچے ان پڑھ رہ جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غربت روز بروز بڑھ رہی ہے کیونکہ جو بچہ آج خود کام سیکھتا ہے اور مزدور کے طور پہ کام کررہا ہے اس کے نزدیک بھی تعلیم کی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور کل کو وہ بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواتا اور یوں پورا خاندان ان پڑھ رہ جاتا ہے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بچے جن کے ہاتھ میں قلم اور کتاب ہونی چاہئے تھی وہ بچے آٹو مرمت کی دکانوں،فیکٹریوں اور بھٹیوں پر جارہے ہوتے ہیں۔حقیقت میں پاکستان میں ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے پاس اپنے بچپن سے لطف اندوز ہونے اور آزادانہ طور پہ کھیلنے کااور علم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔مگر یہ حق پاکستان کے 25فیصد سے زیادہ بچوں کو مل ہی نہیں پاتا۔بچوں کو یہ حق دلانے کے لیے حکومت،متعلقہ اداروں اور مقامی شہریوں کو کردار ادا کرنا چاہیے، بچوں کو ورکشاپوں اور بھٹیوں پہ بھیجنے کی بجائے ا سکول بھیجا جائے اس کے اندر مقامی آبادی کا بھی کردار ہونا چاہئے۔
آبادی میں موجود تعلیم یافتہ افراد کو ایسے لوگوں پہ نظر رکھنی چاہئے جو اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے کام پر لگا دیتے ہیں ان کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کریں اور لوگوں کو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے پر آمادہ کریں اور اس کے بعد حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کو جنہوں نے بچے اپنے پاس مزدور رکھے ہوئے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت سزائیں بنائی جائیں اور پھر متعلقہ اداروں سے ان کالی بھیڑوں کو بھی نکالا جائے جو ائیر کنڈیشنڈ دفتروں سے باہر نکلے بغیر ’’سب اچھا ہے‘‘کی رپورٹ دیتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی اس میں کردار ہونا چاہئے کہ جو کہ لوگ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب استطاعت بھی ہیں،وہ غریب بچے جو تعلیمی مسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکتے ان بچوں کی مالی معاونت کریں اور بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری لے لیں تو یقینا انھیں مزدور بچوں میں سے ہی قابل استاد،ڈاکٹر ،انجینئر ،افسران ،سیاستدان اور صحافی نکلیں گے کیو ں کہ بقول اقبال،
ناامید نہیں ہے اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1156137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.