ساری دنيا ميں مرد اور عورت کو قانونی طور پر برابر کے
حقوق حاصل ھيں۔ مگر تيسری دنيا يعنی غير ترقی يافتہ ممالک ميں عورت اور مرد
کے درميان موجود معاشی تفريق کو بہت اجاگر کر کے پيش کيا جاتا ھے۔ اور آخری
سبق يہ بتايا جاتا ھے کہ اگر تيسری دنيا کے معاشرے ميں ايسی تبديلی لاہی
جاۓ اور معاشرے کو ايسا بنا ديا جاۓ جيسا ترقی يافتہ ممالک کے معاشرے ھيں،
توعورت اور مرد کے درميان موجود معاشی تفريق ختم ھو جاۓ گی یا کم ھو جاۓ گی۔
معاشرتی تبديلی کسی سوچ یا قانون کے تابع عمل نہيں ھے بلکہ اس تبديلی کے
واقع ھونے کے ليے طويل وقت درکارھوتا ھے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے رسم و رواج
و روایات کے برعکس کسی تبديلی کو اھميت نہيں ديتا۔ پاکستان ميں مرد و زن
ميں معاشی تفريق کو بالکل ابتدا ھی ميں محسوس کر ليا گيا تھا۔ اور بالکل
صيح سمت ميں آگے بڑھتے ھوۓ خواتين کی تعليم کی حوصلہ افزاہی کی گی۔ ھمارا
مزھبی طبقہ تو اول روز ھی سے خواتين کی تعليم کے ليے کوشاں رھا ھے اور
مدارس کي صورت ميں تعليم البنات کا نيٹ ورک قائم کر کے کاميابي سے نبی اکرم
کے اس فرمان کی کی لاج رکھی ھے جس فرمان ميں آپ نے خواتين کی تعليم کی
تاکيد کی تھی۔
خواتين ھی کی نہيں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی تعليم سے وابسطہ ھے۔ بہت ساری
تلخ حقيقتوں کی طرح یہ بھی حقيقت ھے کہ ھم تعليم ميں پچھڑے ھوے ھيں۔ تمام
تلخ حقيقتوں اور محروميوں کے باوجود حوصلہ افزا حقيقت یہ ھے کہ ايک مطالعے
کے دوران ملک کی ايک نامور يونيورسٹی ميں ميں 39 طلبہ و طالبات ميں طالبات
کی تعداد 37 پائی گی۔
پاکستانی قوم، سيلابی پانی کی طرح، اپنا راستہ خود بناتی ھے ۔ ضلع راولپنڈی
کے ايک ديہی علاقے ميں یہ حقيقت سامنے آئی کہ باپ اپنا نام لکھنے سے قاصر
ھے جبکہ اس کی بیٹی ماسٹر کی ڈگری رکھتی ھے
قوموں کی زندگی ميں اکہتر سال زيادہ عرصہ نہيں ھوتا ۔ کئی ترقی يافتہ ممالک
کو موجودہ مقام حاصل کرنے کے اس سے طويل تر عرصہ لگا ۔ ھمارا معاشرہ صيح
سمت ميں گامزن ھے ۔ زيان کے احساس نے شديد تر ھو کرسيلابی پانی سے سونامی
کی شکل اختير کر لی ھے ۔ ھماری خواتين کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ انھوں نے
علاقائی رسم و رواج اور روايات کی لاج رکھتے ھوئے اپنے ليے ميدان عمل کے
رستے چن ليے ھيں ۔ اس ملک و قوم پر اللہ کی رحمت کی انتہا ھےکہ ھم اپنا
مقدر جلر از جلد بدلنا چاھتے ھيں ليکن ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے ليے 16
سال کا عرصہ بہرحال درکار ھوتا ھے [استسناء کا نام معجزہ ھے] ۔ خدا نے ھميں
اميد رکھنے کی تاکيد کی ھے ۔ ھمارے نبی اکرم نے محنت کو پسنديدہ قرار ديا
ھے ۔ ھمارے قائد نے کام، کام اور کام کا درس ديا ھے ۔ ھم جفاکش قوم ھيں اور
ھم نے اس حقيقت کو پا ليا ھے کہ ھماری ذاتی ، خاندانی ، معاشرتی اور قومی
ترقی کا راز شور و غوغا اور بے جا تنقيد اور خود کوشی ميں نہيں ھے ۔
|