اسلم اور اکرم کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا اسلم کی
عمر پانچ جبکہ اکرم تین سال کا تھا جب ان کے والدین کی ایک حادثے کے باعث
اموات ہو گئیں اور دونوں بھائیوں کو بہت کمسنی میں یتیمی کی آغوش میں آنا
پڑا-
بچوں کی کفالت کے سلسلے میں والدین کے رشتہ داروں کا اکٹھ جوڑ ہوا اور جس
کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلم اپنے چچا عبدالغفور کی زیرِ کفالت جبکہ اکرم کو
اس کے ماموں قاسم علی اپنے ساتھ رکھیں گے جیسا کہ دونوں بھائیوں کے پاس
غربت کے باعث وراثت میں کچھ نہیں ملا حتی کہ جس مکان میں پہلے رہ رہے تھے
وہ بھی کرایہ کا تھا-
اس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کا وجود چاچی اور مامی کو کٹھکنا کافی حد تک
قابلِ فہم ہے جس معاشرے اور دور میں ہم رہ رہے ہیں وہاں اولاد کو اپنے
حقیقی ماں باپ تک کا وجود کھٹکنے لگ جاتا جنہوں نے ساری زندگی اولاد کی
خواہشات اور ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے معمالات میں بسر کی ہوتی
ہے وہاں یتیم و بے سہارے بچوں کی کفالت کیونکر آسان عمل ہوگا-
عبدالغفور ایک محنت کش اور تین بچوں کا باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف
النفس انسان تھا اور اس کی بیوی سائرا بھی نرم مزاج کی مالک تھی جس کی وجہ
سے اسلم کو پھر سے اپنے ماں باپ چاچا اور چاچی کے روپ میں مل گئے-
عبدالغفور نے اپنی بساط کے مطابق اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اسلم کی تعلیم و
تربیت پر خاص توجہ رکھی اور جس کی وجہ سے اور اسلم کی ذہانت و فطانت سے وہ
ایک کامیاب نوجوان کے روپ میں پروان چڑھا اور ایک بہت ہی کم وقت میں وہ
پولیس انسپیکٹر ہو گیا اور اپنے چاچا چاچی کی عزت و احترام اور معاشرے میں
مقام دلانے ساتھ ساتھ ان کی کفالت اپنے ذمہ لے لی ایک اچھا ماحول اور توجہ
اسلم کی زندگی کو اس مقام پر لے آئے آج وہ ایک با وقار اور معاشرتی لحاظ سے
اعلیٰ ذمہ داریاں سنبھال رہا ہے-
اکرم کی کفالت سے پہلے اس کے ماموں قاسم علی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ
تھے اب اکرم بھی اسی فیملی کا فرد تھا قاسم علی ایک پرچون کی چھوٹی سی دکان
چلاتا تھا اور خاموش طبع انسان تھا اور اپنی ہی مستی میں زندگی گزار رہا
تھا جس کے باعث وہ اپنے بھانجے سے زیادہ گھل مل نہیں سکا نہ ہی اس کی تعلیم
و تربیت کی زمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا پایا-
قاسم علی کی بیگم شہر بانو مزاج کی تیز اور اکرم کے وجود کو بوجھ اور مصیبت
سے تشبیہ دینے والی خاتون تھی ایسے حالات میں اکرم کیسے ایک پر سکون اور
اچھی زندگی گزار پاتا اکرم کو پرائمری سکول سے ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک
ہوٹل پر ملازمت کرنا پڑ گئے جس کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کے برعکس ایک مزدور
کے روپ میں پڑھائی لکھائی کے بغیر جوان ہوا اور سارا مہینہ کام اور ہوٹل
مالک سے مسلسل تزلیل کروانے کے باوجود بمشکل محدود سے پیسے کما پاتا تھا جن
پر اس سے زیادہ اس کی مامی کا حق ہوتا تھا -
جس مقصد کے لئے یہ تحریر لکھی اور پیش کی وہ یہ ہے ک جس طرح کا ماحول اور
صحبت میسر ہو گی ویسا ہی انسان اپنے آپ کو اس کے تابع کر لے گا اسلم اور
اکرم دونوں بھائیوں نے ایک جیسی غربت لیکن ماحول یکسر تبدیل میں تربیت پائی
جس کی وجہ سے وہ اس مقام پر ہیں-
والدین اور کفالت کرنے والے رشتہ داروں کو باقی سب معاملات کو ثانوی حثیت
دیتے ہوےَ سب سے زیادہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کو یقینی بنانا
چاہیے تاکہ وہ معاشرے کو ایک بہتر انسان دیں جو معاشرتی بگاڑ کی بجائے ملک
و قوم کا ایک اثاثہ بنے- |