ہمارا مطالبہ ہے کہ قصور میں ہونے والے بچو ں کیساتھ جنسی
جرائم میں ملوث باقی ماندہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو سامنے لایا جائے
کیاقصور میں ہونے والی ہیبت ناک جنسی درندگی جس میں 12معصوم بچیوں کیساتھ
جنسی ذیادتی کرکے انمیں سے گیارہ بچیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا انمیں
سے ایک بچی بچ گئی مگر شومئی قسمت کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے اور
تا حال زہنی طور پر اپاہج ہے مگر پولیس ان مجرمین کو تاحال تلاش کرنے میں
ناکام رہی یا پھر وہ ہچکچا رہی ہے۔ ا س تمام واقعے کے پیچھے وہ کون طاقتور
لو گ ہیں جنہیں چھپانے کیلئے اس کیس کی مکمل طور پر چھان بین نہ کی گئی۔ یہ
ایک سوالیہ نشان ہے؟؟
اب جبکہ معصوم ذینب کیسا تھ جنسی درندگی کرکے اسے مارنے والے عمران علی کو
17اکتوبر کو تختہ دار پر لٹکا کر اسے اسکے عبرتناک انجام کو پہنچا دیا گیا
ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذینب کے علاوہ ان دوسری بچیوں کے مجرموں کی
تلا ش کیوں نہیں کی جا رہی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام گھمبیر کہانی کے
پیچھے کچھ طاقتور لوگ ہیں جنہوں نے ایک بکرے کو بلی چڑھا کر خود کو اس نا
قابل معافی جرم سے بچا لیا ہے۔ جب قصور جیسے بے حس اور بے ضمیر لوگوں کے
شہرمیں ۱۱ بچیوں کیساتھ جنسی ارتکاب ہوا اس معاشرے کے قانون نافذ کرنے والے
ادارے، ہمارے بے حس حکمران اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے خاموش رہے اور
ان دلدوز واقعات کو اہمیت نہ دی گئی اور ہماری پولیس نے بھی کسی ڈر یا خوف
کی وجہ سے بد نیتی یا پھر کسی دباؤ کے تحت ان درندوں کو پکڑنے کی کوشش ہی
نہیں کی اور بے ضمیری کی انتہا کہ 2006-2014 تک حسین والا ضلع قصور میں
280-300 معصوم بچونکی جنسی ویڈیو او ر ننگی تصاویر جن میں ان سے جنسی
ذیادتی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور انہیں بلیک میل کرکے انکے والدین سے
لاکھوں روپے بٹورے گئے ۔ قصو ر کے لوگوں نے مقامی پولیس اور مسلم لیگ ( ن)
کے ایم پی اے ملک سعید کو اس تمام واقعے میں ملوث قرار دیا۔ اس وقت کے وزیر
قانون رانا ثناء اﷲ نے اپنے 18 اگست کے ایک بیان میں انتہائی شرمناک حد تک
اپنی گری ہوئی زہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ قصور میں کوئی اسطرح کا
واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔ جو انتہائی شرمناک بات ہے۔ جب یہاں کے لوگوں سے
بات کی گئی توانہوں نے کہا کہ پولیس اور حکومت ہماری ایک نہیں سن رہی اور
مجرموں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے کیونکہ اسمیں بڑے بڑے با اثر لوگ ملوث
ہیں۔انتہائی شرمناک حد تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گھناونا کردا ر ادا
کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا تا کہ انہیں خاموش
کروایا جا سکے اور مجرموں کو بچانے میں اپنا گھٹیا کردار اد ا کیا جو ایک
سوالیہ نشان ہے۔ ؟؟؟؟؟؟جان بوجھ کر ان واقعات سے چشم پوشی کی گئی اور صرف
ایک مجرم عمران علی پر جان بوجھ کر اکتفا کیا گیا تاکہ دوسرے ساتھی مجرموں
کو بچایا جا سکے حالانکہ یہ انتہائی نا قابل یقین بات ہے ۔ اس کیس میں بھی
مجرم عمران علی کو بلی کا بکرا بنا کر اسکے ساتھیو ں کو بچا کر انکے جرم پر
مٹی ڈال دی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس او مقامی طاقتور لوگوں نے
باقی شریک جرم طاقتور لوگوں کو بچا لیا جو ایک نا قابل معافی جرم ہے جسکی
تحقیق ضروری ہے۔
ذینب کیس میں ایک انتہائی لرزہ خیز انکشاف ہو ا جس میں تفتیشی افسران کے
درمیان ہونے ولی ایک فون کال نے اس بات کو تقویت بخشی اور اس با ت کو ثابت
کر دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس مقدمے میں ملوث اپنے بڑے بڑے مگر
مچھوں کو بچا لیا جس میں پولیس افسران یہ انکشاف کرتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ
زینب کے قتل کیس میں انتہائی ہائی پروفائل لوگ ملوث ہیں جنہیں چھوٹی بچیوں
کے ساتھ جنسی فعل کرکے لذت محسوس ہوتی ہے۔ یہ ملزم بچیاں اٹھواتے ہیں اور
انکے ساتھ جنسی زیادتی کرکے انہیں جان سے مار دیتے ہیں اور وہاں سے رفو چکر
ہو جاتے ہیںَ ۔ اس فون کال سے یہ بات بھی منظر عام پر آئی کہ یہ ملزمان
باہر سے آتے ہیں اور اپنے شکار کرنے والے شکاری سے جس نے پہلے ہی سے بندو
بست کیا ہوتا ہے اپنا کام کرتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ زینب کا ملزم عمران
علی جسے دوسرے مجرموں کو چھپانے کیلئے استعال کیا گیا اسے صرف بچیوں کو
مہیا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کال میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ
قصور کے ناظم، ممبران اسمبلی، وزراء اور بڑے بڑے با اثر لوگوں کے ڈی این اے
بھی لئے جائیں تاکہ اصل حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا جو با
اثر لوگ ہیں انہیں بچا کر ایک مجرمانہ کھیل کھیلا گیا۔
بچوں کے ساتھ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں بچیوں کی خلاف جنسی درندگی، اغوا ،
تشدد اور اسکے بعد نہیں قتل کر دیاجانا جیسے 2300کیسوں سے ذیادہ رپورٹ ہوئے
ہیں مگر بہت سے مقدمات جو پاکستان کے تھانوں میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا پھر
اپنی عزت کے خوف سے انہیں چھپا لیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کا
تعاون، قانون میں سقم، پولیس کی عدم توجہی، تفتیش کے مخدوش اور روایتی
طریقے وغیرہ اور آگہی کا فقدان وہ بڑے بڑے عوامل ہیں جو مجرموں میں ان
جرائم کے ارتکاب میں ممدو معاون ہوتے ہیںَ جس سے مجرمین میں دلیری پیدا
ہوتی ہے او ر وہ اپنے انجام سے بچ جاتے ہیں۔
ہم مشہور ٹی وی اینکر شاہد مسعود کے اس دعوے کو نہیں جھٹلا سکتے جس میں
انہوں نے کہا تھا کہ عمران علی اکیلا مجرم نہیں ہے اسمیں ایک بڑا گینگ شامل
ہے جو بین الاقوامی بھی ہو سکتا ہے ۔ اسمیں شامل بڑے بڑے طاقتور مجرموں کو
بچانے کیلئے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور ہم نے دیکھا کہ انہیں بچا لیا
گیا۔
انتہائی سرعت سے اس مقدمے کی تفتیش اور دوسروں کو بچا لینا جو تا حال آزاد
گھوم رہے ہیں ہمارے پولیس کے اداروں کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ اس
مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران نے کسی خوف کے تحت ان بڑے اور با
اثر مجرموں کو بچانے میں اپنا کردار اداکیوں کیا اور عمران علی کو آگے کرکے
اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جو ہمارے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتا
ہے۔ ہم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مقدمے کی تفتیش دوبارہ کی جائے
اور ان تمام مکروہ چہروں کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے جو تا حال
اپنے انجام کو نہیں پہنچ پائے کہ یہ ایک انتہائی مناسب اقدام ہوگا۔
سید انیس احمد بخاری
|