“ جہیز ایک لعنت ہے“۔ جی ہاں یہ وہی لعنت ہے جسے ہم خوشی
سے اپنے چہروں پر قبول کرتے ہیں۔ ویسے دین کے معملات میں ہمیں بلا وجہ کے
فتوے لگانے آتے ہیں مگر جہاں بات اپنے فائدے کی آئے وہاں سب بہولا دیا جاتا
ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ جہیز کے بارے میں یہ کہ دیتے ہیں کہ نبی پاک
صلی لله علیہ والہ وسلم نے بہی تو بی بی فاطمہ زہرہ کو جہیز دیا تھا تو
جناب یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ نبی پاک (ص) نے حضرت علی سے ذرہ بیچ کر
گہر کا ضروری سامان خریدنے کو کہا تہا جن میں مشکیزہ ، کہجور کی چٹائی اور
چکی شامل تہے اور ہرگز یہ سب چیزیں جہیز میں شامل نہیں ہوتی بلکہ یہ وہ
تیاری ہے جو حضرت علی نے اپنی شادی کے لیے خود کیں ۔ لیکن اگر ہمارا معاشرہ
اس بات کو ڈھارس بنا کر چلتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔ ہمارے نبی (ص) نے خود
گیارہ شادیاں کیں مگر جہیز نہیں لیا ۔ آپ (ص) کی پیروی کرتے ہوئے صحابہ
اکرام نے بھی جہیز نہیں لیا ۔ ایسی کوئی حدیث یا آیت نہیں ملتی جس میں جہیز
لینے یا دینے کا حکم ہو ۔
لفظ جہیز عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں تیاری کرنا ۔ جیسے سورہ
یوسف میں ہے
“ اور جب انہوں نے ان کے لیے سامان تیار رکھا“
گویا جہیز تیاری کو کہتے ہیں لیکن وہ تیاری جو لڑکے والوں کی طرف سے کی
جائے لیکن ہمارے معاشرے میں جسے جہیز کہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی اپنے
گھر سے وہ سامان تیار کر کے لائے جس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
ہمیں شریعت کے اصول صرف حق مہر لکھتے ہوئے یاد آتے ہیں ۔ قرآنی آیات اور
احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی ایک سادگی کا نام ہے جس سے ایک معاشرہ
سدھرتا ہے دو خاندان ملتے ہیں اور دین مکمل ہوتا ہے۔ لیکن ہم اپنے ہی بنائے
فضول رسم و رواج کی وجہ سے شادی کو سادگی اور آسانی کے بجائے بوجھ بنا لیتے
ہیں جس کا تمام تر اثر لڑکی کے والدین پر پڑتا ہے اللہ نے بیٹی کو رحمت
بنایا اور زمانے نے بوجھ۔ اللہ جب خوش ہوتا ہے تو بارش برساتا ہے اور جب
ذیادہ خوش ہوتا ہے تو بیٹی پیدا کرتا ہے ۔ مگر ذیادہ تر لوگ بیٹی کے پیدا
ہونے پر اتنی خوشی کا اظہار نہیں کرتے جتنا بیٹے کے پیدا ہونے پر کرتے ہیں۔
وجہ “ پھر جہیز “ ۔ اکثر گھرانوں میں آج بھی بیٹی کی شکل دیکھتے ہی اس کے
جہیز کی فکر کندھوں پر محسوس ہونے لگتی ہے اور بیٹے کو دیکھتے ہی بڑھاپے کا
سہارا ، ماں باپ کی بیساکھی جیسے جذبات دل کو تسکین پہنچانے لگتے ہیں۔ تو
جناب بیٹی کے جہیز کی فکر تلے تو آپ نے جان بوجھ کر ہی خود کو روندھ دیا ہے
۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن میں والدین بچی کی پیدائش کے
بعد سے ہی اس کے جہیز کی چیزیں جوڑنے لگ جاتے ہیں اور تعلیمی معاملے میں
کہتے ہیں کہ “ بس دس کر لے پھر گھر کے کام کاج سیکھے “ ۔ بیٹیوں کو تعلیم
دلوانے میں زمانے کا ڈر محسوس ہوتا ہے لیکن جہیز لینے اور دینے کے معاملے
میں خوفِ خدا محسوس نہیں ہوتا ۔
جب بھی شادی کا ذکر آتا ہے تو ذہن میں سب سے پہلے جہیز کا خیال آتا ہے ۔
بلکہ بغیر جہیز کے تو بیٹی کو رخصت کرنا شاید نا ممکن ہی ہے ۔ بعض لڑکیاں
شادی کی عمر سے گزر جا تی ہیں مگر ان کے رشتے نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کے
ماں باپ لڑکے والوں کی مانگ کے مطابق جہیز پورا نہیں کر سکتے ۔ اس طرح کے
کئی کیسز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جس میں جہیز کے بوجھ سے کسی باپ نے
خود کشی کر لی یا اس ڈپریشن میں ہی چل بسا کہ وہ اپنی بیٹی کو کچھ دینے کی
حیثیت نہیں رکھتا اور اگر جہیز کے بغیر کسی نے اپنی بیٹی کی شادی کر ہی دی
تو سسرال والے دن رات لڑکی پر قیامت ڈھاتےہیں اور جہیز نہیں لانے پر خوب
لعن طعن کرتے ہیں ۔
( ڈوری ڈیتھ) اس اصطلاح کا استعمال ان اموات کے لیے کیا جاتا ہے جن کی وجہ
جہیز ہوتا ہے ۔ یا تو عورت کو قتل ہی کر دیا جاتا ہے یا اسے اتنا ٹورچر کا
نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ خودکشی کرلے یہ بھی قتل کے ہی مترادف ہے ۔
پاکستان میں سالانہ دو ہزار اموات جہیز کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ہر سال اس
شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
متعدد فورسز اور منتخب جمہوری حکومتوں نے ایسی کوشش کی ہیں کہ جہیز کی روک
تھام کی جائے اور شادی کی تقریبات پر بیش بہا پیسہ لگانے سے عوام کو روکا
جا سکے ۔ ایک ایسی کوشش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس میں درخواست
گزار نے نے حدیثوں اور قرآنی آیات کے ذریعے جہیز کی روک تھام کی درخواست
پیش کی اور سپریم کورٹ نے اسے غیر قانونی بھی قرار دیا مگر اس پر عمل پیرا
نہیں ہو سکا۔
جہیز ایک ناسور ہے جس نے لاکھوں بہنوں، بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ
دیا ہے ان کی معصوم آنکھوں سے خواب چھین کر خوف میں مبتلا کردیا ۔ اس رسم
سے غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ یہ لعنت ہمارے معاشرے میں ایسی
پھیلی ہوئی ہے کہ لڑکے کہ گھر والے امیر لڑکی کے رشتے کے ہی طلبگار ہوتے
ہیں تاکہ ذیادہ سے ذیادہ مال و زر جمع کیا جا سکے اور اس کی وجہ سے غریب
لڑکیاں اپنے گھر کی چار دیواری میں بن بیاہی رہ جاتی ہیں ۔
ہم غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے کیا امید رکھیں جب کہ جدید تعلیم یافتہ بھی اس
معاملے میں پرانے رسم و رواج کی ہی پیروی کرتے ہیں اور بیٹی کو خوب بڑھ چڑھ
کر جہیز دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دے سکتے ہیں تو کیوں نہ دیں مگر وہ یہ
کیوں نہیں سوچتے کہ ہم استطاعت رکھتے ہوئے بھی جہیز نہ دے کر غریبوں کے لیے
مثال قائم کریں تاکہ لوگوں کو سبق ملے ۔ اس رواج کو ختم کرنے کے لیے ہمیں
اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ متعدد والدین ہار مان جاتے
ہیں اور جہیز کو اپنی بیٹی کی خوشیوں کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔ کاش وہ یہ سمجھ
جائیں کہ گھر چیزوں سے نہیں اچھی تعلیم و تربیت سے بستے ہیں ۔
جہیز ایک بہت نازک معاملہ ہے اور ایک خطرناک رسم بھی ۔ جو نہیں دے سکتا وہ
جان مار کر بھی دیتا ہے اور جو دے سکتا ہے وہ حد سے تجاوز کر کہ دیتا ہے ۔
جہیز کی جڑیں مضبوطی پکڑ چکی ہیں جو انسان کو تو اکھاڑ کے پھینک سکتی ہیں
مگر خود مضبوط رہتی ہیں ۔
اپنے کردار پر ڈال کر پردہ اقبال
کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے
|