غیر جانبداری کا لفظ بہت پیارا ہے، اکثر روشن فکر حضرات
کو نیوٹرل رہنے یا غیرجانبدار رہنے کی تاکید کی جاتی ہے ۔لیکن آپ ڈھونڈ کر
دیکھئے ، کہیں آپ کو کوئی غیر جانبدار آدمی نہیں ملے گا۔ ایک اصول پرست
اور پڑھے لکھے انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا اور شیطان ، علم اور
جہالت ، ظالم اور مظلوم قصوروار اور بے قصورکے درمیان ہونی والی چپقلش کو
دیکھ کر غیر جانبدار ہوجائے۔
انسان کی فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ صحیح کی جانبداری کرے اور غلط کی
مخالفت کرے۔
جب معاشرے میں صحیح اور غلط کا جھگڑا شروع ہوتا ہے تو مختلف مسائل پیدا
ہوتے ہیں۔ انسان کا یہ یقین کرنا کہ وہ اپنے معاشرتی مسائل کو اپنی فکر اور
سوچ و بچارسے حل کرسکتا ہے ، روشن فکری کہلاتا ہے۔ایک روشن فکر انسان اس
بات کو سمجھتا ہے کہ معاشرتی مسائل خرافات و توہمات، جنگ و عداوت، تعصب و
نفرت اور دباو اور طاقت سے حل نہیں ہو سکتے ، چنانچہ وہ ان سب چیزوں کا
نقاد ہوتا ہے۔
یہ نقد اور روشن فکری دو طرح کی ہے، ایک یہ ہے کہ انسانی معاشرتی مسائل کو
حل کرنے کے لئے ایک خدا موجود ہے ، جس نے ہر دور اور زمانے کے لئے انبیا
مبعوث کئے اور کتابیں نازل کیں۔ لہذا انسانی مسائل کے حل کے لئے خدا، انبیا
اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے استفادہ کیا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے
کہ خدا دنیا کے ہر انسان کا خدا ہے ،وہ ہر انسان سے محبت کرتا ہے اور تمام
الٰہی ادیان اور کتابیں اپنے اپنے زمانے کے انسانوں کے مسائل کی گرہیں
کھولتی تھیں۔لہذا انسان جب کسی مسئلے کا کوئی حل پیش کرے تو وہ پورے عالمِ
بشریت کو نگاہ میں رکھے۔یہ معقول روشن فکری ہے۔
جبکہ غیر معقول روشن فکری یہ ہے کہ انسان خدا، فرشتوں، انبیا، آسمانی
ادیان اور الٰہی کتابوں کا انکار کرے ، اور انسانی مسائل کاحل صرف اور صرف
اپنی سوچ و بچار کو قرار دے۔ یہ غیر معقول روشن فکری ہے چونکہ تاریخ بشریت
اس بات پر گواہ ہے کہ ہر دور میں انسانی مسائل کوحل کرنے کے لئے ادیان
الٰہی اور انبیا لوگوں کے درمیان موجود رہے ہیں ۔لہذا اس زندہ حقیقت سے
آنکھیں بند کر کے یعنی انسان خود خدا کی جگہ پر بیٹھ کر انسانی مسائل کا
حل تلاش کرے یہ غیرمنطقی اور غیر عقلی کام ہے۔
معقول روشن فکری کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان تعلیماتِ خدا کے مطابق صحیح اور
غلط کی تشخیص دے کر صحیح کا ساتھ دیتا ہے اور غلط کا راستہ روکتا ہے جبکہ
غیر معقول روشن فکری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صحیح اور غلط کی تشخیص
کے بجائے نیوٹرل اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
بطورِ کلی ایک روشن فکر ایسے انسان کو کہتے ہیں جو کسی معاشرے اور ملک کا
مقامی فرد ہوتا ہے اور اپنے معاشرے کے مسائل کے حل کے لئے تجزیہ و تحلیل کے
ساتھ لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔جبکہ مستشرق وہ ہوتا ہے جو مقامی نہیں ہوتا
بلکہ اسلام کو سمجھنے کے لئے مغرب سے مشرق کا رخ کرتا ہے۔اب جدید تعریف کے
مطابق مغرب کی قید اٹھا دی گئی ہے اور ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں
تحقیق کرتا ہے اسےمستشرق کہتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر ضروری ہے کہ ظہورِ اسلام کے وقت جب لوگ جوق در جوق مسلمان
ہو رہے تھے، تو وہ اسلام کے معقول پیغام کو سن اور سمجھ کر مسلمان ہو رہے
تھے۔ کسی بھی مسلمان ہونے والے کو نہ ہی تو کوئی جاگیر دی جاتی تھی، نہ
باغات اور نہ ہی اونٹ بلکہ مسلمان ہونے والا اسلام کی منطق اور فطرت کے
مطابق معارف سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجاتا تھا۔
مکے اور مدینے کے کفار، یہودیوں اور مسیحیوں کے علاوہ دور دراز کے ممالک سے
بھی لوگ اسلام کا پیغام سننے کے لئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں تشریف لاتے
تھے ، سوالات پوچھتے تھے، کبھی مسلمان ہوجاتے تھے اور کبھی مسلمان ہوئے
بغیر اسی سوچ و بچار میں واپس چلے جاتے تھے۔واپس جا کر وہ اپنی اقوام و
قبائل میں اسلام کا تعارف کرواتے تھے اور یوں مزید لوگ اس پیغام کو سمجھنے
کے لئے پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔
لوگوں کا اس طرح ذوق و شوق سے مسلمان ہونا ، غیر مسلموں کے لئے سخت تشویش
کا باعث تھا، بعد ازاں پیغمبرِ اسلام ﷺ نے جب دیگر ممالک کے بادشاہوں کو
اسلام کی قبولیت کا پیغام بھیجا تو دیگر ادیان کے دینی رہنماوں کے ساتھ
ساتھ بادشاہوں کو بھی اسلام سے شدید خطرہ محسوس ہوا۔
یہ وہ دور تھا کہ جب غیر مسلم دانشمند اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ وہ
تلوار کے ساتھ اسلام کا راستہ نہیں روک سکتے چونکہ اسلام کو لوگ عقل کے
ساتھ قبول کر رہے تھے۔چناچہ اسلام کی تبلیغ کو روکنے کے لئے اس بات کو عام
کیا گیا کہ آپ یہ حق اور باطل، صحیح اور غلط کی باتیں چھوڑ کر نیوٹرل
ہوجائیں۔
آپ کے لئے نعوذباللہ بُت بھی اور اللہ کی ذات بھی برابر ہے، اگر آپ بتوں
کے نقائص نکالتے ہیں تو پھر نیوٹرل رہنے کے لئے معاذاللہ ، اللہ کی ذات میں
بھی خامیاں تلاش کریں۔اگر آپ تورات و انجیل میں تحریف کے قائل ہیں تو
نعوذباللہ قرآن مجید میں بھی تحریف کو قبول کریں۔
مستشرقین کا یہ وہ حربہ تھا جو کارگر ثابت ہوا،اور آج تک مسلمان ممالک میں
اس نیوٹرل پن کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔بعد ازاں ایک طرف مسلمانوں نے اسلامی
حکومت کو ملوکیت میں تبدیل کیا اور دوسری طرف اسلام سے سہمے ہوئے غیر مسلم
اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہوگئے۔ مجموعی طور پر تین طرح کے
لوگ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہوئے:
۱۔ عیسائی مبلغین
۲۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
۳۔سچائی کی کھوج لگانے والے
آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے اس دور میں جب مسلما ن ، اسلام کے پیغام کے
بجائے تلواریں لے کر دنیا کو فتح کرنے نکل پڑے تھے، مغربی ممالک پر حملے
کرتے تھے، شہروں کو آگ لگاتے تھے ، عورتوں کو لونڈیا ں بناتے تھے اور مال
و اسباب لوٹ کر لے جاتے تھے ۔۔۔
اس دور میں مستشرق اس بات پر غوروفکر کرنے میں لگے تھے کہ کس طرح مسلمانوں
کو مغلوب کیا جائے۔ جب ہمارے بادشاہ رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھے ، اس
وقت مستشرق قرآن مجید کے تراجم میں مشغول تھے، وہ عربی سیکھ رہے تھے
،مسلمانوں کے عقائد کو جانچ رہے تھے اور قرآن و حدیث پر کتابیں لکھ رہے
تھے۔
عیسائی مبلغین ،علم و قلم کے ساتھ عیسائیت کی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ
لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لئے مسلمانوں کے نکات ضعف کو برجستہ کرتے
تھے ، لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات ایجاد کرتےتھے
اور اسلام کا عیسائیت سے غلط موازنہ کرکے لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دیتے
تھے۔
آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئےکہ قرآن مجید کا لاطینی میں پہلا ترجمہ ۱۱۴۳
عیسوی میں ہوا اور ترجمہ کرنےوالا کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی کسی
مسلمان حکمران نے یہ ترجمہ کیا تھا بلکہ فرانس کے کلیسا کے سربراہ یعنی
کشیش جس کا نام پِطرُس تھا ، اس نے یہ ترجمہ کیا ۔اگرچہ اس ترجمے میں بہت
ساری غلطیاں موجود تھیں لیکن چونکہ کسی مسلمان نے اصلاح یا نیا ترجمہ کرنے
کی زحمت گوارہ نہیں کی چنانچہ یہی ترجمہ جہانِ غرب میں مقبول رہا اور اسی
ترجمے سے اٹلی، جرمنی اور ہالینڈ کی زبانوں میں بھی ترجمے کئے گئے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مختلف حکومتوں کے جاسوس مستشرقین کیا کرتے تھے، ان کا کام
مسلمانوں کے اہم مقامات، معدنی ذخائر ، جنگی نظریات و طریقہ کار، باہمی
روابط نیز مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کو ڈھونڈنا ان کی معلومات کو
قلمبند کرنا اور کسی مسلمان ملک سے جنگ ہونے کی صورت میں درست اعدادو شمار
کے ساتھ اپنی حکومتوں کی بروقت رہنمائی کرنا تھا۔
مستشرقین کی فراہم کردہ معلومات کے باعث ہی اس وقت بھی اسلامی ممالک کے
معدنی ذخائرکو نکالنے کی قراردادیں غیرمسلم ممالک سے بندھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح جنگیں بھی مستشرقین کے نقشے کے مطابق لڑی جاتی تھیں ، مثلا آج بھی
ہم میں سے کتنوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ صلیبی جنگوں کی تعداد کتنی ہے
اور یہ کتنا عرصہ لڑی گئیں اور ان میں مستشرقین کا کیا کردار تھا؟
اب آئیے صرف تحقیق کرنے والے مستشرقین کی بات کرتے ہیں، تو انہوں نے بھی
مختلف زبانوں میں قرآن و حدیث کے ترجمے کئے اور اسلامی عقائد کو متعارف
کروایا ، اس کے ساتھ ساتھ کئی مستشرق مسلمان بھی ہوئے لیکن زیادہ تر نے
مذہبی تعصب کی بنا پر قرآن و حدیث کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہوئے ،
قرآن و حدیث پر اشکالات وارد کئے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے عقائد کی غلط
تبیین کی تاکہ لوگ اسلام کو قبول کرنے کے بجائے ، اسلام سے متنفر ہونے لگیں
۔
لوگوں کو نیوٹرل کرنے کی فکر دینے کے بعد لوگوں کو اسلام کی غلط تصویر
دکھانا یہ مستشرقین کی دوسری چال تھی۔ سو اس میں بھی وہ کامیاب رہے اوریوں
اسلام کا پھیلتا ہوا پیغام محدود ہوتا گیا۔
آج بھی یہ دونوں حربے ہمارے معاشرے میں عملا دکھائی دیتے ہیں۔آپ کبھی بھی
اصول پرستی کی بات کریں ، آپ کو فوراً نیوٹرل ہونے کے بھاشن دئیے جائیں
گے، مثلا آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں، آپ تازہ مثال لے لیں اور کسی فورم پر
کہیں کہ سعودی عرب کی یمن پر جارحیت یا جمال خاشقچی کا قتل ظلم ہے ، فوراً
آپ کو میسج ملے گا کہ ایران بھی تو بہت ظالم ہے، آگے سے جب آپ دلائل دیں
گے تو دلائل نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ آپ سے کہا جائے گا کہ نیوٹرل ہو کر
لکھیں۔
آپ ہزار چیخیں کہ بھائی معقول بات یہ ہے کہ ظالم کو ظالم کہو لیکن صدیوں
کی مغربی فکری غلامی کے باعث ہمارے سماج میں اب اس کا رواج نہیں رہا ۔اگرچہ
ہر باشعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ظالم کے مقابلے میں نیوٹرل ہوجانا در اصل
ظالم کی حمایت ہے لیکن ظالم کی حمایت کا نام ہی نیوٹرل رکھ دیا گیا ہے۔
دوسرا حربہ اسلام کی شکل کو بگاڑ کر پیش کرنا تھا توکتابیں لکھنے کے بعد اس
دور میں عملی طور پر اسلام کو طالبان، القاعدہ ، داعش، سپاہ صحابہ اور لشکر
جھنگوی کی صورت میں پیش کیا جا رہاہے۔ |