تحریر: سید شاہ زمان شمسی
انسان کی تخلیق میں سب پہلے جو چیز رکھی گئی وہ تھی ایک دوسرے کو سمجھنا۔
ایک انسان کی زبان کو دوسرے سے موافق بنایا گیا تاکہ وہ اس کو سمجھے اور
پھر اس کے مطابق عمل کرے۔ ایک دوسرے کے مسائل سنے سمجھیں، حل کریں سمیت
تمام معلومات کی فراہمی یہ سب اس سے متعلقہ فرد کو اسی ہی زبان میں فراہم
کرنا تھا۔ دنیا میں زبانیں مختلف ہیں مگر ان کو سمجھنے والے اپنے اپنے
انداز میں سمجھتے جاتے ہیں۔
ایک ادیب کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اس زبان کو سمجھنے والے بھی ویسے ہی
ہوتے ہیں۔ یعنی اس کے حلقے کے لوگ اسے بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔یہ ادیب
یا رائٹر ہی ہوتا ہے جو احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنا کر بیان کر جاتا ہے۔
جس طرح ایک بولنے والے کا ہنر حلق سے جڑنے والی زبان میں رکھ دیا گیا ہے
جیسے ہی زبان حرکت کرتی ہے چاہیے وہ شیریں ہو یا تلخ ۔ بعض اوقات یہ زبان
مزاح کے امتزاج سے بھی بھرپور ہوا کرتی ہے۔ اسی طرح قلم کے نوک پر بھی لکھے
جانے والے الفاظ ادیب کے اندر کا پتا دیتے ہیں۔ وہ جو لکھتا ہے وہ اس کا
اندر ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے یہ لکھنے کے بعد پتا چلتا جاتا ہے اور یہ بھی
حقیقت ہے کہ بعض اوقات وہ بالکل الٹ بھی ہوتا ہے۔
معیاری الفاظ کے چناؤ کو ملحوظ خاطر رکھنے والا قاری ایک ادیب کے منتخب کیے
گئے الفاظ کی ترکیب و ترتیب کو دیکھ کے رد عمل کا اظہار کیا کرتا ہے۔ من کی
دنیا بھی عجب دنیا ہے کیونکہ الفاظ کا اطلاق بھی پڑھنے والے کے اندرونی
اعضاء پر ہوتا ہے۔اب یہ لب و لہجے کی ادائیگی پر منحصر ہے کہ ان الفاط کو
سامعین کی معیاری سماعتوں تک پہنچانے کے لیے کس قسم کے انداز بیاں یا انداز
تکلم کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے ارد گرد معاشرے میں بولے جانے
والے ایسے الفاظ بھی ہیں جو اپنی حیثیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اب یہ غور کرنے کی
ضرورت ہے کہ وہ الفاظ ہیں کس قسم کے جو غیر معیاری طور پہ ہماری مارکیٹ یا
گلیوں بازاروں میں ذلیل و رسوا ہونے کے ساتھ پست درجہ رکھتے ہیں۔ خیالات کا
تسلسل اور روانی ہی تو ہے جو لفظوں کو تعمیری شکل عطا کر دیتی ہے۔ کسی شاعر
کی نظم ہو یا غزل کسی نثر نگار کا لکھا ہوا مضمون ہی کیوں نہ ہو اسے ضبط
تحریر میں لانے سے پہلے خیالات کی بھٹی میں بھسم ہو کر نکلنا پڑتا ہے پھر
جا کے کوئی بات بنا کرتی ہے غالب گویا ہیں کہ
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
دنیا کی ہر چیز سوچ یا خیال کے اندر قید ہے
امریکی فلسفی ولیم جیمز جو ماہر نفسیات بھی ہے رقمطراز ہے کہ انیسویں صدی
کی سب سے بڑی دریافت مادی سائنس کے میدان میں نہیں بلکہ یقین سے بہرہ مند
ذہن کی طاقت کے بارے میں تھی۔ کوئی بھی شخص ابدی منبع تک رسائی پا کر اس
قابل بن سکتا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مسئلہ کو حل کر سکے۔ تمام کمزوریاں،
شفا یابی، معاشی آزادی، روحانی بیداری، اور عظیم ترین خوابوں سے بھی بلند
خوشحال زندگی حاصل کی جا سکتی ہے، در اصل یہ علم مسرتوں کا گہوارہ ہے۔ یاد
رکھیں ہر چیز کا پہلا سبب خیالات ہوتے ہیں۔
ایک ادیب شاعر نثر نگار اور افسانہ نگار کے خیالات کی ترسیل مختلف موضوعات
کے گرد گردش کیا کرتی ہے پھر وہ صاحب قلم اپنے علمی و تجرباتی واردات کو
مخصوص انداز سے الفاظ مناسب کا لباس پہنا کر جامہ تحریر پہنانے کی کوشش کیا
کرتا ہے۔ زمین پر انسان کے اتارے جانے کے بعد سب سے بڑا معجزہ ہے لفظ کی
تخلیق جس نے اسے خود سے آشنا ہو کر اپنے آپ کو متعارف کرنے کا سلیقہ سکھایا۔
موت آئے گی اور ہم آخر کار منوں مٹی تلے دفن ہو کے رہ جائیں گے لیکن ہماری
پہچان وہ الفاظ بنیں گے جو ہم سادہ کاغذات کے حوالے کر جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک گروپ سے ملاقات ہوگئی۔ گروپ کا تعلق قلم سے
تھا۔ جس نے مجھے اپنی طرف مائل کیا۔ ’’رائٹرز کلب‘‘ کے نام سے اس فورم میں
شمولیت کو دل مچل اٹھا اور پھر شمولیت بھی مل گئی۔ ایک ایسا فورم کہ جہاں
میرے جذبوں کو نئی جہت ملے گی۔ ہمت کو بڑھانے اور اس تشنہ لب کی پیاس کا
ادراک کرتے ہوئے رائٹر کلب کی ممبر شپ عنایت کی اپنی خوشی و مسرت سے بھرپور
اس کیفیت کو الفاظ مناسب میں بیان کرنا میرے لیے نہایت مشکل ہے۔ ان شاء اﷲ
اس پلیٹ فارم سے وابستہ ہو کر تمام رفقاء قلم کے ضوفشانی تجربات سے بہت کچھ
سیکھنے کو ملے گا ۔میرا خیال یہ ایسے گروپس یا فورم اب وقت کی ضرورت ہے۔
|