تحریر:در صدف ایمان، کراچی
کہتے ہیں ہر دور انسان کے لیے پہلے سے بہتر کی جانب ہوتا ہے اور اس میں کچھ
غلط بھی نہیں شرط یہ ہے کہ انسان اس چیز کو سمجھے اور اپنے آپ کو دن بہ دن
بہتری کی جانب لائے۔ یہ ایک حقیقت ہے صنف نازک جس کی بابت شریعیت اسلامیہ
نے نہ صرف بیان کیا بلکہ خواتین کے حوالے سے کچھ حقوق بھی بتائے۔ دور حاضر
میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہوئیں وہیں جدید زمانے کے جدید
رحجانات نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کیے۔ دور حاضر میں وہ سب ہونے لگا جو کبھی
جہلا کے زمانے میں بھی نہ ہوتا تھا۔ بچیاں، لڑکیاں اپنے ہی گھروں میں محفوظ
نہیں رہیں، آئے دن مظالم و جبر کا شکار ہورہی ہیں۔ زیادتی جیسے واقعات نے
تو جینا دوبھر کردیا ہے۔ کم سن بچی سے لے کر یونیورسٹی کی طالبہ تک کوئی
بھی اس بے ہنگم معاشرے کی تلخ نظروں سے محفوظ نہیں رہا۔ کبھی کسی لڑکی کی
عزت تار تار کردی جاتی ہے تو کبھی ماڈرن ازم کے نام پر لڑکی خود اپنی عزت
گنوا بیٹھتی ہے۔ کبھی تو نادان لڑکیاں باپ کی دہلیز اندھیروں میں سہانی
زندگی کے سپنے لیے آرام سے پھلانگ جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ دل دہلا دینے والا فکر میں مبتلا کردینے والا ہے۔ والدین کی
نیندیں اپنی جوان بیٹیوں کے تحفظ میں اڑنا لازم ہیں۔ اسی ضمن میں وہ لوگ
اپنی بیٹیوں کو گھر سے باہر بھیجنے میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں اور نہ
بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر بہت سی باصلاحیت لڑکیاں اپنی صلاحیت
بروئے کار لانے سے قبل ہی اپنے خول میں سمٹ کر رہ جاتی ہیں مگر دور ِ جدید
میں جہاں جدید ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے بے باک ادوار دیے وہیں انسان کی
زندگی میں سہولیات سمیٹ کر رکھ دیں۔ وہ سب باتیں جو کل تک خواب خیال ہوتی
تھیں آج ایک اسکرین پر عیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس جدید ٹیکنالوجی کے تحت ہی
وہ لڑکیاں جنھیں ان کے والدین نے اپنی بیٹیوں کو عدم تحفظ کا شکار محسوس
کرتے گھر بٹھالیا ہے اور وہ گھر میں رہ کر صرف فیس بک کی ہوگئیں ہیں تعلیم
حاصل کرسکتی ہیں۔ تعلیم بھی وہ جو وہ چاہیں پھر چاہے عربی زبان ہو یا انگلش
اسپیکنگ َبائیو کیمسٹری ہو یا تاریخ، سلائی کڑھائی ہو یا آرٹ کرافٹ ہر چیز
کے لیے بہترین اساتذہ موجود ہیں۔
جنھوں نے اپنے فن میں مہارت حاصل کی پھر اسے لوگوں کے لیے فائدہ مند بنایا
بہترین انداز میں اپنے کام لے کر چلے اور آج ان کے طفیل بہت سے لوگ تعلیم
یافتہ، ہنر یافتہ ہیں۔ اگر چہ بہت سی جگہ دھوکا فریب بھی ہوا اور فیس لے کر
استاد و ادارہ دونوں ہی غائب ہوگئے۔ جس کی وجہ سے عوام میں لفظ آن لائن کو
لے کرکافی وہم و گمان موجود ہیں بلکہ اذہان پر یہ بات راسخ ہوگئی کہ آن
لائن سب دھوکہ و فریب ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود
ہیں۔ تو اس جدید دنیا کے جدید دور میں بھی لازم سی بات ہوں گے لیکن اس چیز
کو وجہ بنا کر اپنی اولاد کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دینا کہاں کا اصول ہے
بلکہ یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ زمانہ آپ کے لیے ناقابل ِ اعتبار ہے تو
زمانے کی سزا اولاد کو کیوں؟ حفاظت و خیال اچھی چیز ہے ہونا بھی چاہیے مگر
متبادل موجود ہو تو اس چیز سے پھر انھیں محروم کرنا غلط بات ہے اس لیے جو
ہمارے اور ہماری اولاد کے لیے بنا نقصان کے موجود ہو اسے اپنانے میں دیر
کرنا دانشمندی نہیں ۔
یہاں ایک بات یہ بھی ہے کچھ بہترین آن لائن اکیڈمیز نے فیس کا عدد عام طبقے
کی پہنچ سے دور کا رکھ دیا ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ بھی اسے کم از کم اتنا
مناسب تو کریں کہ عام انسان بھی اس سے استفادہ حاصل کرسکے اور افسوس کے
ساتھ یہیں نہیں کچھ جگہوں پر یہ آن لائن تعلیم کے حوالے سے یہ رحجان بن گیا
کہ انھیں کچھ صرف نہ کرنا پڑے۔ پھر بھی انھیں سب کچھ حاصل ہوجائے ،تو یہ
بھی بے انتہا غلط ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ آن لائن فروغ ِ تعلیم و ہنر دینے
والا بھی اپنی ایک ذاتی زندگی رکھتا ہے جس میں اسے بھی وسائل ِ زندگی کی
حاجت ہوتی ہے۔ اس لیے انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے حق تلفی نہ کرنے کا
سوچنا چاہیے اور اسے اس کے جائز حق و محنت سے نوازنا چاہیے تو وہ بھی اپنی.
ضروریات مکمل کرسکے گا اور آپ کی ضروریات کو بھی مکمل کرنے میں مدد دے گا۔
یاد رکھیں مثبت سوچ ہی مثبت معاشرہ جنم دیتی ہے اپنے آپ کو بہتر کریں اور
معاشرے کو مستحکم و مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ |