یہ ایک قابل دید حقیقت ہے کہ کسی قوم کی ترقی کا راز
اس قوم کے افراد کی تعلیمی استعداد پر مبنی ہے تعلیم افراد کی شخصیت و
کردار کی تعمیر کی ضامن ہے ،تعلیم افراد کو تہذیب و تمد ن کی اعلیٰ اقدار
سے روشناس کر نے کے ساتھ ساتھ افراد کی ذہنی تطہیر کا کام بھی کر تی ہے
تعلیم سے اخلاقی و معاشرتی نظام سنورتا ہے جس قوم کا تعلیمی نظام اور اس
قوم کے افراد کی تعلیمی کیفیت اعلیٰ ہو وہ قوم کی ترقی کی منازل طے کر کے
اوج ثریا پر اپنا علم بلند کر جاتی ہے ۔
1940میں قرار داد پاکستان منظور ہو نے کے فوری بعد محمد علی جناح ؒ کے
اشارے پر مسلم لیگ نے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کے ذمے یہ کام
تھا کہ نوزائیدہ ریاست پاکستان کیلئے تعلیم و ثقافت کا ایک ایسا نظام وضع
کر ے جس کے ذریعے نئی ریاست کو اسلامی تقاضوں پر اور اس کے نظام تعلیم کو
اسلامی تقاضوں کے مطابق نئے انداز سے مرتب کیا جا سکے اس کمیٹی کے ذمے تین
کام تھے (1)نظام تعلیم (2)نظام معیشت (3)نظام سیاست
پاکستان بننے کے بعد تین مہینے کے اندر اندر اکتوبر 1947میں قائد کے کہنے
پر پاکستان میں پہلی تعلیمی کانفر نس بلائی گئی جس میں مشرقی و مغربی
پاکستان سے ماہرین تعلیم کو دعوت دی گئی تھی اس کانفرنس کے نام ایک پیغام
میں انہوں نے لکھا کہ موجودہ نظام تعلیم ہماری ضروریات کی تکمیل نہیں کر
سکتا اور ہمیں رائٹ ٹائپ آف ایجوکیشن (مثبت نظام تعلیم )کی ضرورت ہے محمد
علی جناح ؒ کو زیادہ مہلت نہ مل سکی اور وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے
،ان کے بعد ایک خاص طبقہ بلکہ انگریز کا وفادار طبقہ ہم پر مسلط ہے, بقو ل
علامہ اقبال ؒ ’’ زاغو کے تصرف میں رہے عقابوں کا نشیمن ‘‘واقعی عقابوں کا
نشیمن زاغو کے تصرف میں ہے ۔
دنیا کی ہر زندہ قوم اپنے نظام تعلیم کو اسطرح مرتب کر تی ہے کہ اس کے
نتیجے میں جو نسل پروان چڑھ سکے اور جو قوم تیار ہو سکے وہ اس نظریے کی
علمبر دار اس تہذیب پر کاربند اور اس تمدن کی نقیب ہو جس کے تحفظ کیلئے وہ
نظام تعلیم ترتیب دیا جا تا ہے ہم گذشتہ 64سال سے اپنی بیشتر کاوشیں
سرگرمیاں توانائیاں ،اور وسائل ان علوم کو پڑھنے پڑھانے میں صرف کر رہے ہیں
ہماری ساری تعلیمی کوشش اور وسائل و اسباب ابھی تک عملاً اسی ہدف کے حصول
کیلئے استعمال ہو رہے ہیں جو 1984میں لارڈ میکالے نے طے کئے تھے رنگ اور
نسل میں ہندو ستانی اورذوق و مزاج میں انگریزی برطانوی مغربی سوچ و فکر کا
یہ غلام طبقہ امت مسلمہ اور بالخصوص وطن عزیز کی قیادت و سیاست سے ہماری
کیا رہنمائی کرے گا ۔
اس انگریزی نظام تعلیم نے ہمیں کیا دیا ہے ،کلرک ،چپڑاسی ،وکیل ہو۔ انگریز
کے عدالتی نظام کی بحالی کیلئے تو لاکھوں کی تعداد میں لانگ مارچ کر تے ہیں
لیکن اس ملک اس قوم اور مذہب کیلئے مسلمانوں کے مسائل کیلئے ان کے پاس وقت
ہی نہیں اس وقت ملکی قومی ترقی میں جو ڈاکٹر ،انجینئراور سائنسدان مصروف
عمل ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح مذہب سے رہا ہے ،میں عصری تعلیم کی
افادیت کا انکار نہیں کر رہا اس کی افادیت اپنی جگہ پر ہے مگر ہمارے ہاں
لارڈ میکالے کا جو نظام تعلیم رائج ہے ،اس کے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں
۔
آخرہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ہاں تعلیم بالغاں کی ساری اسکیمیں
کیوں ناکام ہوتی ہیں ؟دیہات کے بچوں کی زیادہ تعداد کیوں سرکاری اسکولوں سے
بھاگتی ہے ؟خواتین کی بڑی تعداد سرکاری اسکولوں کی تعلیم سے کیوں متنفر
ہے؟اس ناکامی،اس فرار اور اس تنفرکی ایک بڑی وجہ اس تعلیم کا غیرعملی ،غیر
حقیقی اور غیرافادی ہونا بھی ہے۔آج ہمارے ہاں تعلیم ایک باقاعدہ اور
انتہائی نفع آور تجارت بن چکی ہے ۔اب استاد اور شاگردکا رشتہ باپ اور بیٹے
جیسا نہیں بلکہ ایک تاجراور آجر میں تبدیل ہو چکا ہے۔بھانت بھانت کے تعلیمی
ادارے معاشرے کو طبقات میں تقسیم درتقسیم کے عمل کو پُختہ سے پُختہ ترکررہے
ہیں ۔معاشرے میں وی آئی پی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔آج ہمارا تعلیمی نصاب
اور تعلیمی ادارے استعماری قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں اسلامیات کا نصاب
غیرمسلم ہندو،عیسائی،اور قادیانی پڑھارہے ہیں ۔آج بے مقصداور بے جہت تعلیمی
اداروں کا ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔جن کی تعلیم کا کوئی مقصدنہیں
نظرآرہا۔ان تعلیمی اداروں کے فضلاء ملک وملت اور معاشرے کے کسی کام کے نہیں
،آج خواندگی کی سیڑھی پر چونسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا 34 واں نمبر
کیوں ہے؟خواندگی کے فروغ کی ساری کاوشیں اور خرچ کئے جانیوالے وسائل بے
نتیجہ کیوں ثابت ہورہے ہیں؟
ہماری اجتماعی قیادت کا رویہ تعلیم کے بارے میں کیا ہے؟ہمارا جاگیردارانہ
اور سیاسی نظام تعلیمی اداروں پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے ؟ہماری تعلیمی
پالیسیاں ہمارا تعلیمی نصاب بلکہ ہمارا پورا ملکی اور قومی نظام سامراجی
قوتوں کے نرغے میں ہے ،غیرملکی اداروں کے عمل دخل نے علم اور تعلیم کی
آزادی کو ختم کر ڈالا ہے ۔
نصاب تعلیم سے اسلامی تاریخی مواد کا اخراج جدید درسگاہوں سے
اردو،عربی،فارسی اور اسلامیات کی دردناک بیدخلی تاریخ، معاشیات،
سیاسیات،قانون اور انگریزی ادب میں ہندو مصنفین کی زہریلی اور اسلام دشمن
کتب کا بے جا استعمال کم تعلیمی بجٹ اور ناقص تعلیمی نصاب یہ تما م وجوہات
تعلیمی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اگر آج اس ْصورت حال کی اصلاح اور خرابیوں کا ازالہ کرنا چاہیں جن میں سے
بعض کا ذکران گزارشات میں کیا گیا ہے ،جن میں سے چنداقدامات کرنا ضروری ہیں
(1) مقصدتعلیم (2)نتائج تعلیم(3)منہاج تعلیم (4)نظام تعلیم(5)نصاب
تعلیم(6)ذریعہ تعلیم (7)نگران تعلیم۔ان تمام شعبوں میں بامقصد اور دیرپا
تبدیلی لانے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ اقدامات فوری نوعیت کے اور قلیل المیعاد
ہوں اور کچھ طویل المیعاد اقدامات کی بھی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں پہلا کام
اساتذہ کی تربیت اور توجیہ نو (REORIENATION)کاہے۔پرائمری اور مڈل کے
اساتذہ سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ تک تربیتی پراگرام مرتب کئے
جائیں ۔دوسرا سب سے اہم اور فوری کام یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کیلئے
بالخصوص اور دیگر عوام کیلئے بالعموم ایسا دینی ادب تیار کیا جائے جو نئے
شبہات کا جواب دے اور جو مغرب کی فکری اور تہذیبی غلامی سے نجات دلانے
کیلئے ناگزیر ہو۔
فوری توجہ کا تیسرا میدان بڑھتی ہو ئی ناخواندگی ہے اس پر قابو پا یا جائے۔
چوتھا قدم استعمار کی خدمت کرنیوالے جاگیر داری اور سیاسی نظام کی تعلیمی
اداروں میں مداخلت کو روکا جائے تعلیمی بجٹ کی کڑی نگرانی کی جائے ،ہمارے
ناقص تعلیمی نظام سے بیشمار معاشرتی ،اخلاقی ،سیاسی ،اقتصادی ،قباحتیں پیدا
ہو رہی ہیں ،ڈگری ہولڈر کی تعداد بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے
نوجوان نسل کے اخلاق و کردار تباہ ہو رہے ہیں لہٰذا جب تک تعلیم کے پورے
نظام اور نصاب پر از سر نو غور کرکے اسکو وطن عزیز کی اجتماعی ،ملی اور
اقتصادی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارے فارغ التحصیل
نوجوانوں کی بیکاری اور بے روزگاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والی
لاتعداد اور لامتناہی خرابیوں کا سد باب نہ کیا جائے گا ۔
ایک معیاری و مثالی نظام تعلیم کی تدوین من حیثیت القوم ہم سب کی ذمہ داری
ہے حکومت تعلیمی اداروں ،دانشوروں ،ماہرین تعلیم اہل علم سماجی تنظیموں اور
عمائدین ،متکلمین اسلا م سب کو باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ذریعے ان
اہداف کو حاصل کر نا چاہیئے اور اگر اہل پاکستان نے اس معاملہ میں کو تاہی
کی تو آئندہ نسلوں کی گمراہی بلکہ ارتداد کا وبال ان کی گردنوں پر رہے گا
مسائل کا رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہو تے بلکہ انسان کے مسائل میں اضافہ
ضرور ہو جا تا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم من حیث القوم اس پر عمل کر نے کیلئے تیار ہیں
؟ہمیں رشوت ،کرپشن ،اور بد عنوانی کے سرطان کو جس نے ہمارے جسد ملی کو اندر
سے بالکل کھوکھلا کر رکھا ہے کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے ،قرآن پاک کا
مطالعہ کر نے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جب قومیں امانت میں خیانت کرتیں
ہیں تو اﷲ تعالیٰ بطور سزا کے پو ری قوم کو کرپشن کے عذاب میں بددیانتی ،بد
عنوانی رشوت اور سفارش کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے ،من حیث القوم ہمارا
ان برائیوں میں ملوث ہو نا بطور عذاب الٰہی کے ہے ہمیں اپنے اﷲ سے معافی
مانگنی چاہیئے اور ان گناہوں سے تائب ہو نا چاہیئے ،اگر ہم عملی طور پر اس
کیلئے تیار ہیں تو یقین جانیئے کہ یہ مسائل انشاء اﷲ بہت جلد حل ہو سکتے
ہیں اگر ہم نے اس طرف کو ئی توجہ نہ دی تو میں پو رے وثوق سے کہہ سکتا ہو ں
کہ رشوت ،سفارش کرپشن ،بد عنوانی ،بد دیانتی کی لعنت سے کبھی بھی چھٹکارہ
نہ حاصل کر سکیں گے ،ہم ساری زندگی گناہوں کی اسی دل دل میں پھنسے رہیں گے
ہمیں اپنے نظام تعلیم کی تمام خامیوں کو دور کر نا ہو گا اور نصاب تعلیم
نئے سرے سے مرتب کر نا ہو گا اور ہمارا نصاب تعلیم ہمارے دین کے تابع ہو نا
چاہیئے جس سے ا سکے مضمرات کم ہوں گے اور فوائد بہت زیادہ ہوں گے وہی علم
انسان کیلئے مفید ہے جس علم کا تعلق وحی الہییہ سے ہو گا ․․․․ اﷲ ہمیں علم
نافع عطا فرمائے جس سے دنیا آخرت کی دونوں کی کامیابی یقینی ہو ۔ |