راوی کا پل جہاں لوگوں کو دن کے وقت دریا کا نظارہ دیتا
ہے اور لوگ دور دور سے آ کر یہاں پر دریا کی سیر کرتے ہیں۔ وہیں اس پل سے
کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنےکی کوشش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔
اسی راوی کے کنارے ایک شخص ایسا بھی ہے جس کا کام ان لوگوں کی کوششوں کو
ناکام بنانا ہے۔
|
|
اللہ دتہ پچھلے 47 برس سے دریائے راوی پر بطور غوطہ خور تعینات ہیں۔ ان
ساڑھے چار دہائیوں میں جہاں انھوں نے دریا کی تہہ سے لاشیں نکالی ہیں وہیں
درجنوں زندگیوں کے چراغ بھی گل ہونے سے بچائے ہیں۔
اللہ دتہ کی کہانی انہی کی زبانی
میرا نام اللہ دتہ ہے اور میں سول ڈیفنس کی طرف سے بطور غوطہ خور کام کرتا
ہوں۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے 47 سال ہو گئے ہیں۔
میں اب تک دو ہزار سے زیادہ لاشیں نکال چکا ہوں اور800 کے قریب لوگوں کی
جان بھی بچا چکا ہوں۔
|
|
اس دریا میں تیرتے ہوئے بھی لوگ ڈوبتے ہیں اور خودکشی کرنے والے لوگ بھی
آتے ہیں۔ اکثر دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ نہاتے ہوئے ڈوبتے ہیں کیونکہ
انھیں دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے یہاں نہانا منع ہے۔
ان سب حادثات کا ریکارڈ ہمارے پاس ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ بچ جاتے ہیں ان کے
فون نمبر اور گھر کا پتہ ہم لے لیتے ہیں اور جو لوگ بچ نہیں پاتے ان کی لاش
نکالنے کے بعد ہم اس کی تصویر لے لیتے ہیں۔ وہ میں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں
اور میرے پاس ایک سال کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
|
|
جو لوگ یہاں نہانے لے لیے آتے ہیں انہیں میں وہی تصویریں دکھاتا ہوں کہ
پانی میں ڈوب کر مرنے والے کا یہ حال ہوتا ہے جس وجہ سے پھر وہ نہانے سے
باز آ جاتے ہیں اس لیے میری جیب میں ہمیشہ تصویریں موجود ہوتی ہیں۔
ابتدا میں ایک دو مرتبہ مجھے ڈر لگا تھا مگر پھر اس کے بعد میرا خوف ختم ہو
گیا۔ اب میں لاشوں سے ڈرتا نہیں۔ انھیں غسل بھی دیتا ہوں چاہے وہ پانی میں
زیادہ عرصہ رہنے کی وجہ سے گل سڑ بھی گئی ہوں۔
|
|
سنہ 1988 میں بڑا سیلاب آیا تھا۔ تین دن تک پانی رہا جس میں بہت سے گاؤں
والے اور ڈیرے والے ڈوبے جس میں سول ڈیفنس نے بہت ساری جانیں بچائیں۔
بہت سارے لوگ جان بچانے کے لیے درختوں پر چڑھ گئے تھے جنھیں ہم کشتیوں میں
جا کر خشکی کی طرف لے کر آئے۔ اس دوران میں نے ایک دن میں انیس، بیس افراد
کو بچایا تھا۔
بہت سارے واقعات ہوتے ہیں جو اکثر مجھے یاد بھی نہیں رہتے۔ مگر کچھ ذہن میں
رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکی آئی تھی۔ پل کے اوپر اور نیچے دیکھتی
رہی اور پھر رکشے میں بیٹھ کر چلی گئی۔
|
|
پھر رات کو اس نے دوبارہ آ کر چھلانگ مار دی تھی۔ اگلی صبح تھوڑی دور ہی اس
کی لاش پڑی تھی۔
کئی مرتبہ ایسے بھی ہوا ہے کہ لوگ ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں کہ میری جان
کیوں بچائی، مجھے مرنے دو لیکن میں انھیں مرنے نہیں دیتا۔ جب تک میری زندگی
ہے، میں یہی کام کروں گا۔
رحمان کے تجربات
اللہ دتہ اس دریا پر کام کرنے والے اکیلے شخص نہیں ہیں۔ رحمان اسی دریا پر
پچھلے دس سال سے کام کرتے ہیں۔
|
|
اس دریا پر وہ سیاحوں کو سیر کے لیے آنے والوں کو دریائے راوی کی سیر
کرواتے ہیں مگر ان کا دوسرا کام اللہ دتہ کی مدد کرنا بھی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا اصل میں دریا کا پانی اب پہلے کی
طرح نہیں ہے۔ اس لیے اب جن دنوں پانی بارشوں کی وجہ سے گہرا ہوتا ہے تو لوگ
ڈوبنے کی وجہ سے مرتے ہیں۔
جب دریا میں پانی کم ہو تو لگتا تو ایسے ہی ہے کہ پانی گہرا ہے مگر جب لوگ
چھلانگ مارتے ہیں تو ان کی ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں۔
|
|
بہت سارے لوگوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع
ہوتی ہے۔
لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟
رحمان کے بقول لوگ غربت کی وجہ سے یا پھر بیوی بچوں سے تنگ آ کر خودکشی
کرنے کے لیے آتے ہیں، کچھ نوجوان جو امتحان میں فیل ہوتے ہیں وہ بھی آتے
ہیں اور پل کے اوپر سے چھلانگ مار دیتے ہیں۔
سارا دن ہم یہی ہوتے ہیں اور کوئی بھی ہمیں نظر آئے تو ہماری کوشش یہی ہوتی
ہے کہ اس کی جان بچ جائے۔
|
|
جو لاشیں تین چار دن کے بعد ملتی ہیں تو پھول چکی ہوتی ہیں اور خراب ہو
جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان سے بہت بدبو آتی ہے۔ بہت سے لوگ ان کے قریب بھی
نہیں جاتے تب بابا اللہ دتہ ہی ان کو غسل دیتے ہیں۔
عبداللہ کی کہانی اللہ دتہ کی زبانی
اس دن بھی ہم صبح سویرے راوی پہنچ چکے تھے جب اچانک ہمیں لوگوں کا شور
سنائی دیا۔ ہم بھاگ کر پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ایک بندہ پل کے کنارے کے
اوپر کھڑا ہوا ہے اور لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے۔
پھر اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ اور سوچنے کا موقع ملتا اس بندے نے پل کے اوپر
سے چھلانگ لگا دی۔
|
|
میں اور رحمان، ہم دونوں نے کشتی کی طرف دوڑ لگا دی۔ پھر کچھ ہی منٹوں میں
ہم نے اس کو پانی سے باہر نکال لیا۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ بندہ کسی سے بات کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھا اور
اپنے ہی دھن میں تھا۔
ہمیں احساس ہوا کہ اس بندے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے
اسے سمجھا بجھا کر اس کی جیب کی جب تلاشی لی تو اس میں سے ایک نمبر ملا۔
فون پر ہماری بات عبداللہ کے بھائی احمد سے ہوئی جنھیں ہم نے معاملے کے
بارے میں بتایا۔ وہ کچھ دیر بعد ہی راوی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور اپنے
بھائی کو لے کر چلے گئے۔
احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا میرے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی جب
مجھے وہ فوں کال موصول ہوئی کہ میرے بڑے بھائی نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔
ہماری پوری فیملی آج بھی اس واقعے کو یاد کر کے صرف یہ سوچتے ہیں کہ اگر اس
دن بابا اللہ دتہ وہاں نہیں ہوتے تو کیا ہوتا؟ |
|