از افادات: عالمی مبلغ اسلام ترجمان حقیقت مفکر اسلام
علامہ پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
لوگ کہتے ہیں کہ اُلُّو آگیا۔ اور جہاں اُلّو ہوتا ہے وہاں اُجاڑ ہوتا ہے۔
یہ بربادی کی علامت ہے اُلّو۔ استعارہ بنا دیا ہے بربادی کا۔ اور یہ ہمارا
خود ساختہ ایک تصور ہے؛ کہ جس جگہ پہ اُلّو بولے، اُلّو بیٹھے تو وہاں
بربادی آجاتی ہے۔عجیب فلسفہ گھڑ لیا ہے!…… اُلّو کے بولنے سے بربادی کیسے
آئے گی؟…… ارے! اندر کا نفس اُلّو بن گیا تو پھر بربادی آئے گی۔ اس کو
دیکھو کہ وہ خراب تو نہیں ہوگیا۔ مَیں کہتا ہوں ؛ ایک گھر میں صبح کا
آغازسجدوں سے ہوتا ہے پھر سورۂ یٰسٓ کی تلاوت کی جاتی ہے۔سارا دن گھر کے
اندر محبت، چاشنی اور پیار سے افرادِ خانہ کا وقت گزرتا ہے۔ کمائی کرکے
لانے والا گھر کا کفیل؛ رزقِ حلال لاکے اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ نظر کی
پاکیزگی اور خیالوں کی طہارت کا ساماں ہوتا ہے۔ شام کو سورۂ واقعہ پڑھی
جاتی ہے۔ سونے سے قبل سورۃ الملک کی تلاوت ہوتی ہے۔ دہلیز پہ آنے والے سائل
کو جھڑکا نہیں جاتا۔ مہمان کی عزت کی جاتی ہے۔ تکریم دی جاتی ہے۔ گھر کو
صاف ستھرا رکھا جاتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کی مہک پھیلی ہوئی ہوتی ہے گھر میں۔
پھر گھر کے درخت پہ سَو اُلّو بھی بیٹھ جائیں؛ اس گھر میں بربادی نہیں آئے
گی۔
اور ایک گھر میں اﷲ کے حکموں کو توڑا جاتا ہے۔ افرادِ خانہ ایک دوسرے کو
گالم گلوچ کرتے ہیں۔ قرآن کبھی کھول کے کسی نے نہیں دیکھا۔ سجدے کی بھی کسی
کو توفیق نہیں ہوئی۔ تو گھر کے اندر جو مرضی رکھ لیں ؛ برکت نہیں ہوگی۔
میاں! یہ تو تمہارے اعمال کا نتیجہ تھا۔ لیکن تم نے لگا دیااُلّو کے کھاتے!
کہ اُلّو بیٹھ گیا تو یہ سب کچھ بربادی ہوئی۔ تم نے وعدے توڑے، تم نے لوگوں
کو دو نمبر مال دیے؛ اس لیے تمہاری فیکٹری برباد ہوئی۔ اس لیے تمہاری دکان
نہیں چل رہی کہ تم کہتے کچھ ہو اور دیتے کچھ ہو۔ ایک مرتبہ جو دھوکا کھاتا
ہے؛ وہ دوبارہ تمہاری دکان ہی نہیں آتا۔ یہ اُلّو کا کام نہیں ہے؛ یہ
تمہارے نفس کے اُلّو کا کام ہے۔ لیکن تم نے اُلّو پہ ڈال دیا۔ کسی منحوسہ
کے سر ڈال دیا کہ فلاں منحوسہ ہماری دکان پہ آئی صبح؛ آج سارا دن ہماری
دکان پہ گاہک ہی نہیں آیا۔ کیا فلسفہ تم نے تراشا ہے!؟
تو فرمایا گیا ولا ھام ولا صفر نہ ہی صفر کا مہینہ کوئی چیز ہے۔ کہ آپ صفر
کے مہینے کے نام لگا کر کسی چیز کا انکار کردیں گے۔یہ اﷲ کی طرف سے ہے جو
تمہیں نصیب ہوتا ہے۔وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ
اِلَّا ہُو(سورۃ یونس؛آیۃ ۱۰۷) اﷲ تعالیٰ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے؛
تو کوئی اس نقصان کو دور نہیں کرسکتاہے؛ سوائے اﷲ کے۔ اور اگر اﷲ تمہیں
کوئی بھلائی دینا چاہے، تمہیں بہتری عطا کرنا چاہے، فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ۔
(ایضاً) اﷲ کے فضل کو کوئی واپس بھی نہیں کرسکتا۔ لوٹا بھی نہیں سکتا۔ اﷲ
کے فضل کو کوئی ٹال بھی نہیں سکتا۔ سارا زمانہ لگ جائے کسی شخص کو نقصان
پہنچانے کے لیے؛ لیکن اﷲ کی نصرت اسے نصیب ہو ؛ کوئی بال بھی بیکا نہیں
کرسکتا۔ سارا زمانہ کسی کو فائدہ دینے میں لگا رہے ؛ لیکن اﷲ نہ چاہے تو
ایک ذرے کا فائدہ بھی نہیں پہنچاسکتا۔ ایسا ہوتا ہے نا! کہ مریض بہت دولت
مند ہے۔ اور اعلیٰ سے اعلیٰ علاج گاہ میں اسے پہنچادیا گیا ۔ ہر وقت پانچ
چھ ڈاکٹر اوپر کھڑے ہیں۔ ایک ایک سانس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کئی مشینوں کے اندر ایک ایک چیز کا ہر وقت ٹیسٹ ہورہا ہے۔ لیکن موت آئی تو
سارے ڈاکٹرز ایک سانس بھی بھیک نہیں دے سکے۔…… اور دوسرا بیمار پڑا ہے۔
ہاسپٹل والوں نے بھی جواب دے دیا ہے۔ اس غریب کی کسی کو پرواہ ہی نہیں
ہے۔اسے باہر جھاڑے میں پھینک دیا ۔ میرا مالک شفا دینا چاہے تو اسے عطا کر
دے۔ شفا اﷲ کے پاس ہے۔ موت اﷲ کے پاس ہے۔ زندگی اﷲ کے پاس ہے۔ خیر اﷲ کے
پاس ہے۔ وہ جس کو جو چاہے عطا کرے۔ اپنے عقیدوں کو مضبوط کرو۔ اﷲ پر توکل
کرو۔ اﷲ پر بھروسا کرو۔ وہ چاہے تو ہوتا ہے۔ وہ نہ چاہے تو کچھ نہیں ہوتا۔
اس کے چاہنے سے ہے۔ اس کے نہ چاہنے سے نہیں ہے۔ اس لیے اس کے چاہنے سے خیر
ملتی ہے۔ وہ خیر چاہے تو خیر ملتی ہے۔ اور اگر وہ کسی کی خیر نہ چاہے تو
سارا زمانہ بھی لگ جائے تو بھی خیر نہیں۔
(ماخوذ از افادات مصطفائی؛ زیر ترتیب)29-10-2018٭٭٭
|