ایک ایسا نوجوان جسے ہارورڈ سے نکال دیا گیا اور آج
دنیا جسے بل گیٹس کے نام سے جانتی ہے۔ جس کے سافٹ ویئر ’’مایئکرو سافٹ ‘‘کے
بغیر دنیا کا ہر کمپیوٹر ادھورا سمجھا جاتا ہے ،وہ اکثر کہا کرتے ہیں،’’
اگر آپ غریب پیدا ہوئے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ، لیکن اگر آپ غریب
مر رہے ہیں تو اس میں آپ کا ہی قصور ہے‘‘۔واقعتاً پختہ ارادوں کی کمی اور
محنت کا فقدان قوموں کے زوال کا باعث بنتا ہے۔ ایک اور جوان جو موت کے بعد
بھی زندہ رہے گا اور جو کبھی اپنے دوست کے ہاں کرائے کے کمرے میں ننگے فرش
پر راتیں گزرنے پر مجبور تھا، اور جو ہفتہ کے دن اچھے کھانے کی تلاش میں
سات کلو میٹر پیدل سفر کے بعد مندر پہنچ جاتا تھا، وہ نوجوان ایپل کا بانی
سٹیو جابزتھا، جس کے ارادوں اورمستقل محنت مزاجی میں کبھی بھی غریبی اور
برے حالات آڑے نہیں آئے اور وہ ان ہی خصوصیات کے بعد دنیا بھر میں کامیاب
ترین شخص بن گیا۔
ہم میں سے ہر کوئی کامیابی کا طلبگار ہے۔ کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے
اندر وسیع معنی رکھتا ہے۔ ’’دولت، شہرت ، عزت‘‘، کیا یہی کامیابی ہے؟ کیا
وجہ ہے کہ ایک مزدور سے لے کر ارب پتی تککامیابی چاہتا ہے؟مجھے عبد اﷲ کی
کہانی پھر یاد آ رہی ہے۔یہ کہانی ایک ایسے ہی شخص کی ہے جس کا سفر دولت،
شہرت ، عزت سے نہیں، مفلسی اور بے کسی میں شروع ہوا۔ عبد اﷲ جب ہوش میں آیا
تو یہ کوئی نا معلوم مقام تھا۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔یہ اسلام آباد کا
کوئی ہسپتال تھا۔ سب ذخمو ں سے کراہ رہے تھے اور اپنوں کی تلاش میں
تھے۔یہ2005ئکے زلزلہ کے بعد کا ایک منظر تھا۔اس زلزلہ میں عبداﷲ کے والدین
مکان کی چھت تلے آ کر دنیا سے چل بسے، اس وقت وہ دسویں کا طالب علم تھا۔اسے
زخمی حالت میں اسلام آباد لایا گیا۔ آزاد کشمیر اور ہزارہ میں میں اس سانحہ
نے ہزاروں بچوں کی طرح عبد اﷲ کی دنیا بھی اجاڑ دی۔ہسپتال سے فارغ ہونے کے
بعد وہ کدھر جاتا؟اب اس کے سامنیتین راستے تھے۔ ایک راستہ اس کے تباہ حال
گاؤں کی طرف جاتا تھا۔ جہاں کھنڈرات کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دوسرا راستہ
یتیم خانے کی طرف جاتا تھا۔ جہاں ہر وقت اسے یتیم ہونے کا احساس دلایا جاتا۔
تیسرا راستہ کراچی میں اس کی خالہ کی طرف جاتا تھا۔ لیکن اس نے زندگی کا
ایک اہم فیصلہ کیا۔ اسے گھر میں والد کا دیا درس یاد آگیا کہ کسی کے آگے
ہاتھ کبھی نہ پھیلانا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہو نے کی جدوجہد کرنا۔ اسے سمجھ
نہ آیا کہ کیا کرے۔ وہ ایک ویگن کا کنڈیکٹر بن گیا۔ آہستہ آہستہ بات کرنے
والا شرمیلا عبد اﷲچند ہی روزمیں اس دنیا سے اکتا گیا۔ یہ کوئی دوسری ہی
دنیا تھی۔ جب استاد نے اسے سگریٹ کش لگانے کو کہا تو اس نے سگریٹ پاؤں تلے
نفرت سے مسل دی۔ جس پر اس کی گال پر زوردار تھپڑ پڑا۔اس نے یہ کام چھوڑ دیا۔
لیکن اس کے پاس چند سو روپے جمع ہو چکے تھے۔اس نے راولپنڈی اسلام آباد کے
سنگھم پر فیض آباد میں ریڑی لگا دی۔ اب وہ کنڈیکٹر سے ریڈی بان بن چکا تھا۔
تازہ فروٹ اس کی ریڈی پر دستیاب رہتے۔یہاں ہی میری رسمی ملاقات اس سے ہوتی
رہتی تھی۔ایک باراس نے کہاکہ وہ میٹرک پاس ہے اورکچھ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے
اسے تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ اب عبد اﷲ کہیں غائب ہو گیا۔اور کئی
برس تک وہ کہیں نظر نہ آیا۔
میں اسلام آباد کے ایف سکس میں نیشنل پریس کلب میں داخل ہو رہا تھا ۔ایک
کار ریورس آ کر رک گئی۔ میں ٹکر سے بال بال بچ گیا۔ ایک نوجوان نمودار ہوا
اور مجھ سے لپٹگیا۔ میں سمجھا کوئی خطرناک وارداتیا گلے لگ چکا ہے۔لیکن اس
نے کسی موبائل یا رقم کا تقاضا نہ کیا۔ چشمہ اتارا تو میں دیکھ کر دنگ رہ
گیا۔ کبھی میں اس کے سوٹ اور کبھی چمکتی لمبی کار کو دیکھتا۔ یہ وہی
کنڈیکٹر اور ریڈی بان عبد اﷲ تھا۔ وہ کچھ سنانا اور میں بھی اس سے کچھ سننا
چاہتا تھا۔ وقت آڑے آیا۔ شام کوملنے کے وعدے پر ہم رخصت ہو گئے۔
شام کو عبد اﷲ اپنی داستان سنا رہا تھا۔فیض آباد میں ریڈی لگانے کے دوران
اس نے اوپن یونیورسٹی سے داخلہ امتحان کی تیاری شروع کر دی۔حالات نے معصوم
عبد اﷲ کو جفاکش عبد اﷲ بنا دیا۔ اس نے گریجویشن مکمل کر لی۔ اب نوکری کا
مسلہ تھا جو ہزاروں ، لاکھوں نوجوانوں کا مسلہ ہے۔ لیکن یہ مسلہ صرف
سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، اثر و رسوخ والوں کا ہی حل ہوتا ہے۔ یہ کم بخت
ٹیلنٹ اور میرٹ کا ہزار بار خون کر دیتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر بیٹھے یہلوگ
عبد اﷲ جیسے نوجوانوں کی محنت اور ضرورت کو کیا سمجھیں۔ نوکری کے جھانسے،
افسروں کی منت سماجت، گھریلو ملازمت کے نام پر بیگار، دفاتر کی خاک ،
استحصال کے باوجود اسے ملازمت نہ ملی۔ لیکن اسے زندگی کا ایک سبق مل گیا ۔
کامیابی کا راز اس کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ اب اس نے موم بتیاں تیار کرنا شروع
کر دیں۔ ستارہ مارکیٹ میں اس کا ایک کمرہ پر مشتمل کارخانہ چل پڑا۔ کام
بڑھا تو اس نے ایک ، پھر دو ، تین ملازم رکھ لئے۔ اس کی اگلی منزل کراچی
تھی۔ یہاں اس نے ایک فیکٹری لگا لی۔ امپورٹ ایکسپورٹ شروع ہوا۔اس کا
کاروبارلاکھوں ، پھر کروڑوں میں ہو گیا ۔ یہ اس کی نیک نیتی اور انتھک محنت
کا ثمر تھا۔
جو کوئی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا مصمم ارادہ کر لے، اس کے لئے مواقع
ہی مواقع ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے اتاری گئی مقدس کتاب’’
قرآن پاک‘‘میں دنیا و آخرت میں کامیابی کے اصول بیان کئے ہیں۔ اور ان میں
ایک اصول’’ نیک نیتی‘‘ اور دوسرا’’ کوشش ‘‘ ہے۔قرآن کی ایک آیت کا مفہوم
یوں ہے، ’’انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے‘‘ ۔رحمت ا
للعالمین ﷺ کے ایک قول کا مفہوم یوں ہے، ’’بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں
پر ہے‘‘۔ آپ کا ارادہ نیک ہو اور کوشش و انتھک محنت کو شعار بنا لیا جائے
تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیابی سے نہیں روک سکتی۔
|