کسی نے کیا خوب کہا ، ’’ایک وہ وقت بھی تھا جب دوکاندار
کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ان دنوں
کا ذکر ہے جب ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں
بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا۔یہ وہ
دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘کا کوئی تصّور نہ تھا اور ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے
شمار ہوتے تھے۔بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے
اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار
نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ’’میں تمہارے ابا جی سے شکایت
کروں گا۔‘‘ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔اْس وقت کے
اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز
کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں کرنا ہر گھرکا معمول تھا۔کسی گھر
میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اْس گھر کودیکھنے
لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ’’مہمانوں‘‘ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس
گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو ملے بستر نکالے
جاتے۔ خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے۔ مہمان کے لیے
دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی
تھی۔جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں
اداسی کے آنسو ہوتے تھے۔ مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ
پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں
لگ جاتا، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔شادی بیاہوں میں سارا
محلہ شریک ہوتا تھا۔ شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا
علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا۔ جس
گھر میں شادی ہوتی تھی اْن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے
جاتے تھے۔ محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری
میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش
نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا،
سب کے دْکھ ایک جیسے تھے۔نہ کوئی غریب تھا نہ کوئی امیر، سب خوشحال تھے۔
کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں
جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔
…کاش پھر وہ دن لوٹ آئیں''.
یہ درست ہے کہ کبھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ لوگ کردار اور اخلاق کی مثال تھے۔
جھوٹ، دھوکہ، فراڈ، سکینڈل کا نام ہی نہ تھا۔ لوگ بہت خوش تھے۔ گاؤں والے
مل کر مکان تعمیر کرتے تھے۔ سب لوگ جمع ہو کر شادی غمی میں شریک ہوتے۔ مل
کر سب خوش تھے۔ تب ٹی وی چینلز کی یہ ھالت نہ تھی۔ ایک پی ٹی وی۔ کوئی سوشل
میڈیا نہ تھا۔ گھر میں والدین، بہن بھائی ایک ساتھ رہتے تھے۔ آج کے گلوبل
ویلج اور اس وقت کے ویلج میں یہی فرق تھا۔ آج پوری دنیا آپ کی انگلیوں پر
ہے۔ مگر آج ہم دنیا کے قریب اور اپنوں سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ایک گھر میں
بھائی بہن، والدین سب اپنے ٹی وی اور اپنے موبائل ٹیلیفون پر بیٹھے ہیں۔
بھائی کو بھائی کی اور بہن کو ماں کی خبر نہیں۔ یہ ماڈرن دور ہے۔ انٹرنیٹ
معلومات اور علم کا سمندر ہے۔ تب ٹیوشن نہ تھا۔ لوگ ذہین اور محنتی تھے۔
والدین کی قدر تھی۔ اولڈایج ہومز نہ تھے۔ طلباء استاد کے سائیہ سے بھی ڈرتے
تھے۔ مگر استاد اور شاگرد، ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ مقدس تھا۔ آج صورتحال
کچھ اور ہے۔ ہم ویلج سے چل کر شہروں میں آئے اور پھر گلوبل ویلج میں کھو
گئے۔ جہاں نفسی نفسی ہے۔ چھوٹے بڑے کا امتیاز مٹ گیا ہے۔ عزت و احترام نہ
جانے کہاں گیا۔ خلوص اور ہمدردی کہاں کھو گئی۔ گاؤں میں لوگ جوان ہو جاتے،
مگر بزرگ کہتے ہیں کہ پاجامہ نہ ہوتا۔ لمبے چوغے پہنتے۔ لوگ جفاکش تھے۔ مگر
ایک دوسرے کے لئے وقت تھا۔ آج کسی کے پاس وقت نہیں۔ مگر موبائل پر کئی
گھنٹے یوں گزر جاتے ہیں۔ لوگوں کا رہن سہن، تہذیب و تمدن بدل گیا۔ وقت تو
وہی ہے لوگ بدل گئے۔ دن رات ، سورج چاند ستارے ، سبح و شام پہلے جیسے ہیں۔
مگر پرندوں کی وہ چہچہاہٹ نہیں۔ اب دھواں ، گرد و غبار ہے۔ کبھی مطلع صاف
دکھائی نہیں دیتا۔ نئی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ تب لوگ اعلیٰ تربیت یافتہ
تھے۔ ایک زمانہ بیت گیا۔ مگر لوگوں کے رویئے بدل گئے۔ تلک الایام قد خلت۔
|