تحریر: ام محمد سلمان
حجت نہ پیش کیجیے کوئی فضول میں
ہم انتہا پسند ہیں عشقِ رسول میں
میں اسے چپ کرا کرا کے تھک چکی تھی مگر وہ مستقل روئے جارہی تھی۔ ’’دیکھو
ناں رابی! یہ کیا ہو گیا ہے؟بہت کچھ برا ہوتا ہے دنیا میں، بہت برے حالات
آتے ہیں مگر جب کبھی ناموسِ رسالت پر بات آتی ہے میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ
جاتے ہیں رابی! بس مر جانے کو دل چاہتا ہے اب بچا کیا ہے جس کے لیے جینے کی
تمنا کریں‘‘؟ بے تحاشا روتے بے ربط کلمے اس کے منہ سے نکل رہے تھے اور مجھے
سمجھ نہیں آرہی تھی اسے کیسے تسلی دوں؟ میں ابھی لفظوں کا چناؤ کر ہی رہی
تھی کہ آمنہ پھر کہنے لگی، ’’ایسا لگتا ہے رابی! حکمرانوں کے نام پر
خونخوار درندے مسلط ہو گئے ہیں ہم پر، میرے وطن کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں۔
پاکستان کے ٹکڑے کررہے ہیں اسلام کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں۔ کاشانہ نبوت
پہ حملے کررہے ہیں۔ میرے دل کو کہیں قرار نہیں ہے۔ ہم نے سوچا تھا رابی!
نئی حکومت بڑی اچھی ہو گی یہ تو پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی فلاحی ریاست
بنانے کی بات کررہے تھے کتنے خواب دکھائے گئے تھے‘‘۔
اور ہوا کیا؟آج موجودہ حکومت میں گستاخوں کو بحفاظت ملک سے باہر بھجوادیا
جاتا ہے۔ اسلام دشمن لوگ مبارک بادیں دیتے پھر رہے ہیں، برطانوی پارلیمنٹ
میں خوشیاں منائی جارہی ہیں اور یہاں پوری امتِ مسلمہ غم و غصے سے نڈھال ہے۔
عدلیہ فیصلہ سناتی ہے کہ ملعونہ پر توہین رسالت کا جرم ثابت نہیں ہوا اس
لیے اسے بری کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم اس فیصلے کی پشت پناہی کرتا ہے۔
سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ ہم بک چکے ہیں ڈالروں کے عوض، اس لیے سزا نہیں دے
سکتے۔ عوام ہم سے کوئی امید نہ رکھیں۔ کیوں اسلامی قوانین کو توڑ مروڑ کر
پیش کررہے ہیں؟ کیوں ہمارے دلوں پر چرکے لگا رہے ہیں؟ مولانا سمیع الحق بھی
شہید کر دیے گئے۔ اب جینے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی‘‘،اس نے انتہائی بے
بسی سے میری طرف دیکھا۔
جو آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے، وہ مجھے اپنے دل پہ گرتے محسوس ہو
رہے تھے، میرا وجود خود کسی پاتال میں اترتا جا رہا تھا اسے تسلی دینے کے
لیے میں نے دل ہی دل میں رب کریم کو مدد کے لیے پکارا۔ ’’دیکھو آمنہ!
تمہارے جذبات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہیں۔ رسول اﷲﷺ سے محبت رکھنے والے ایک
مومن کے یہی جذبات ہونے چاہئیں لیکن میری پیاری بہن! یہ جذبات یہ آنسو یوں
ضائع کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ غم وہ نہیں جس پر چار دن رو دھو کر صبر کر
لیا جائے اور پھر بھلا دیا جائے بلکہ اس غم کی توانائی کو استعمال کرنا ہے
محبت رسولﷺ کے اصل تقاضوں پر عمل کرنے کے لیے۔ اس شمع کو بجھنے مت دینا۔ یہ
غم تو بڑا مبارک ہے قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے‘‘۔
ہاں ٹھیک ہے کہ اسلام کی ایک ایک کڑی یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی ہے۔ آج مسلمان
ذلت و رسوائی کے عمیق گڑھوں میں گرتے جارہے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہم بس نام کے
مسلمان رہ گئے۔ عملی دین ہماری زندگیوں سے نکل چکا ہے۔ لیکن میری بہن! اس
کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا، اﷲ پر یقین کی حقیقت کمزوری اور مصیبتوں
کے دور میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب یقین وہ شخص نہیں ہے جو اسلام کی قوت و فتح
کے زمانے میں خوش ہو اور مسلمانوں کی کمزوری اور مصیبتوں کے وقت ناامید ہو
جائے بلکہ اﷲ پر سچا یقین رکھنے والے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب مصیبتوں اور
غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جائیں، اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں،
مصیبتیں چاروں طرف سے گھیر لیں تو اس کا اﷲ پر یقین و ایمان اور بھی مضبوط
ہو جاتا ہے وہ ذرا بھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخری فتح
مسلمانوں کی ہے اور دین اسلام نے غالب ہو کر رہنا ہے۔
یہ امت، امتِ خیر ہے۔ اﷲ تعالی مسلمانوں کی مدد ضرور فرمائے گا۔ حدیث میں
آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا’’ اﷲ نے ساری زمین
اکٹھی کر کے مجھے دکھائی، میں نے تمام مشرقی اور مغربی علاقے دیکھ لیے۔ بے
شک اسلام وہاں تک پہنچ جائے گا جو مجھے دکھایا گیا‘‘ (صحیح مسلم) دوسری جگہ
ارشاد فرمایا ’’ اس امت کو سر بلندی، فتح اور (زمین پر) قبضے کی خوش خبری
دے دو‘‘ (مسند احمد) جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ایک گروہ قیامت تک حق
پر غالب رہے گا۔ اسے مجموعی حیثیت سے نقصان پہنچانے والے ناکام رہیں گے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت و غلبہ مسلمانوں کے دشمنوں کے پاس ہے لیکن ہمیں
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اﷲ ہی مختار کل ہے وہ اپنے مومن بندوں سے غافل
نہیں ہے وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان ہمیشہ مجبور و مقہور و ذلیل
رہیں۔ اﷲ تعالی مسلمانوں کو ضرور اٹھائے گا بشرطیکہ ہم سچے دل سے کوشش
کریں۔ ہر صدی میں اﷲ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر کے مسلمانوں کے دلوں میں
ایمان قائم کر دیتا ہے جو خیر میں مسابقت کرتے ہیں اور مصیبتوں کی پروا
نہیں کرتے۔ لوگ ان کی اقتداء میں اﷲ کے دربار میں جانوں کے نذرانے پیش کرتے
ہیں۔ اﷲ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو غلطیوں کی اصلاح کر کے لوگوں کو سیدھے
راستے پر چلا دیں گے یہ لوگ ہدایت کی طرف رہنمائی کریں گے اور کتاب و سنت
کی دعوت پھیلا کر دین کو قائم کریں گے۔
اﷲ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ایک دن برحق ثابت ہوگا کہ آخری فتح متقین ہی کی ہے۔
’’اور جو کوئی دوست رکھے اﷲ کو اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو
اور ایمان والوں کو تو اﷲ کی جماعت وہی سب پر غالب ہے‘‘۔(المائدہ 56)۔ غور
سے سنو آمنہ! کمی کوتاہی ہمارے اپنے عمل میں ہے جسے ہم نے ہی دور کرنا ہے
ہم متقی بن جائیں تو اﷲ کی مدد، فتح و نصرت آج بھی ہمارے ساتھ ہے جب ہمیں
معلوم ہو گیا کہ اسلام نے دنیا میں غالب ہونا ہے تو ہم کسی بھی ایسے واقعے
پر دلبرداشتہ اور نا امید کیوں ہوں؟ ٹھیک ہے دکھ ہوتا ہے وہ فطری امر ہے
لیکن ہمیں اپنی دین کے لیے کی جانے والی کوششیں نہیں چھوڑنی بلکہ مزید تیز
تر کر دینی چاہئیں۔
لوگ سمجھتے ہیں ایک ملعونہ کو رہا کروا کے انہوں نے ہمیں شکست دے دی ہے
ہمارے نبی محترمﷺ کی شان اقدس میں کمی کر دی ہے۔ ہرگز نہیں! یہ ان کی بھول
ہے۔ دیکھو ذرا غور سے دیکھو! ایک ایک دل میں عشق رسولﷺ کی دبی چنگاری بھڑک
کر ’’شعلہ‘‘ بن رہی ہے۔ ہر دل سے صدا آرہی ہے ورفعنا لک ذکرک۔ ہر زبان پر
محمد مصطفیٰ ﷺ کے چرچے ہیں ،درود پڑھ پڑھ زبانیں نہیں تھک رہیں، دلوں کی
ویرانیاں ذکر رسول ﷺ سے آباد ہو رہی ہیں۔ سوئی قوم جاگ رہی ہے۔ جذبہ عمل
بیدار ہو رہا ہے ہمیں اپنی کمی کوتاہیاں دور کر کے متقین کے راستوں پر چلنا
ہوگا تاکہ اﷲ کی مدد ہمارے شامل حال ہو۔ اﷲ کا دین تو اس زمین کے ہر کچے
پکے گھر میں داخل ہو کر رہے گا بس اس راستے میں ہماری کوششیں بھی شامل ہو
جائیں‘‘۔
رابعہ کی باتیں آمنہ کے دل پہ چھائی غم کی گھٹاؤں کو دور کر رہی تھیں وہ
بڑے جذبے سے بولی ’’پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے رابی‘‘؟ آمنہ! میری بہن! یہ
امت ہماری بد عملیوں سے بانجھ ہو گئی ہے ہم اپنے عمل اور کردار سے اسے پھر
ہرا بھرا کردیں گے ان شاء اﷲ۔
|