کبیر خان اور فکری لام بندی

ادب کی تخلیق کا عمل اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کا ارتقاء رکا نہیں اور تخلیق کار جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ نہ صرف قلم اور قرطاس کے حوالہ کر رہا ہے بلکہ اس کے قلم سے نکلے ہوئے نشتر ان ٹارگٹس کی نشاندہی بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ معاشرہ میں وہ کون کون سے کردار اور عوامل ہیں جنہوں نے اپنے آپ پر ملمع چڑھا کر لوگوں کو دھوکہ دیا ہوا ہے۔ کبیر خان نے اپنی میٹھی چُھری کے ذریعہ انہی کرداروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کتابوں کے نام اپنے اندر ایک جدیدیت ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ جو کچھ ان کے اندر لکھا گیا ہے معاشرے کی حالتِ موجود کو بے نقاب بھی کرتا ہے ۔ کبیر خان کی تحریریں بالواسطہ اور بلا واسطہ معاشرے میں ایک نئے شعور کے پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں ۔ کیونکہ سماجی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب حاضر و موجود کے خلاف شعور پیدا ہوتا ہے تو معاشرے میں تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔ معاشرتی تبدیلی بھی جدید شعور سے مشروط ہوتی ہے۔ کبیر خان جو کچھ لپٹ لپٹا کر لکھ رہے ہیں اور سوچتے ہوں گے کہ وہ اس طرح ہماری فکری لام بندی کو بے راہ روی کا شکار کر سکتے ہیں لیکن کبیر بھائی شکر کریں آپ اس زمانے میں پیدا نہیں ہوئے جب سقراط کو نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے الزام میں زہر کا پیالہ پلایا گیا تھا ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کو بادشاہ اور پادریوں نے شاہی نظام کے خلاف خطرہ سمجھتے ہوئے مصلوب کیا تھا ۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں اور ہم سے جان بچائیں ہم اُس شاہی نظام کی تعریف کرنے والے ہیں جنہوں نے ابن رشد کو جلا وطن کر دیا تھا کہ وہ ملحد اور بے دین ہو گیا ہے ۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت امام ابو حنیفہؓ کو جیل میں بندکر کے زہر دے کر مروا دیا تھا ۔ ہم ان بادشاہوں کے ُحدی خواں ہیں جنہوں نے حضرت امام جنبلؓ کو کوڑے مار کر لہو لہان کر دیا تھا ۔ ہم نے ترکی میں اس خلافت عثمانیہ کیلئے تحریک خلافت چلا کر اپنی جائیدادیں بیچ کر افغانستان ہجرت کی تھی جس خلافت عثمانیہ نے 500سال تک اپنی سلطنت میں چھاپہ خانہ نہ لگنے دیا کہ اس سے شعور پھیلے گا اور شعور نظام شاہی کے خلاف خطرہ بن سکتا ہے ۔ ابن تیمیہ 7سال تک قید میں رہے کہ وہ اجتہاد کی بات کیوں کرتے ہیں اور تمام فرقوں کے علماء کے متفقہ بورڈ کے اجلاس سے انہیں عمر قید کی سزا ملی اور وہ اسی قید کے دوران اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔

کبیر صاحب ہمیں وہی سنایا کریں جو ہماری اشرافیہ ہمیں سنانا چاہتی ہے تاکہ Status Quoسے مستفید ہونے والے اس نظام جبر کو جاری و ساری رکھ سکیں ۔ کبیر صاحب کے کتابوں کے عجیب و غریب ناموں پراور جو کچھ ان کتابوں میں لکھا ہوا ہے یہ سب تحریریں ایک گہری سازش لگتی ہیں اور سازش کا لفظ آئے تو جب تک اس سازش کے ڈانڈے یہود و ہنود کے ساتھ نہ ملائیں تو مزا نہیں آتا ۔ اب کبیر بھائی دس کتابوں کے مصنف بن گئے ہیں پتہ نہیں دس نمبر کے الفاظ ذہن میں آتے ہیں ۔ ’دس نمبری مصنف‘ کے الفاظ خود بخود ذہن میں کیوں آ جاتے ہیں دراصل اس کی وجہ مصنف نہیں بلکہ اس میں ہماری اپنی ذہنی کج روی کا قصور ہے ورنہ کبیر صاحب تو مصدقہ شریف آدمی ہیں ۔ کبیر خان کی کتابیں پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ مصنف نے ایسی کتابیں لکھ کر ہمارے ان خیالات، نظریات کو تبدیل کرنے کی گہری سازش کی ہے جنہیں ہم نے اپنے ایمان اور ایفان کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔ ان نظریات نے ہماری ’فکری لام بندی‘ یہاں تک کر دی ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ آزادکشمیر ریڈیو تراڑ کھل، تراڑ کھل میں نہیں ہے تو تراڑ کھل والے ہی اس شخص کی حب الوطنی پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔

مصنف کی کتاب ’’آزادکشمیر کا تاریک جغرافیہ‘‘ کا Titleدیکھ کر سمجھتا رہا کہ شاید کبیر بھائی کی آنکھیں نیند کی وجہ سے بند تھیں کہ پبلشر کتابیں انہیں تھما گئے کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک نشئی مرنے لگا تو کسی نے پوچھا کہ تمہاری آنکھیں تمہارے مرنے کے بعد کسی کو عطیہ کیوں نہ کر دیں تو نشئی نے جواب دیا ضرور ، ضرور ، لیکن مریض کو بتا دیناکہ یہ آنکھیں دو کش لگانے کے بعد ہی کھلتی ہیں۔ لیکن کبیر بھائی کو ٹیلیفون کرنے سے پہلے میں نے سوچا کیوں نہ کتاب کا کوئی صفحہ کھول کر دیکھ ہی لیا جائے ، ایک صفحہ کھولا تو اس پر لوگوں کے پیشے لکھے ہوئے تھے۔ جو اس طرح تھے۔
٭ بوبی کے ابو ہڑتال پر ہیں، وہ مدرس ہیں
٭ پپو کے چچا ٹھیکیدار ہیں وہ سیاست کرتے ہیں۔
٭ بانو کے بھیا سمندر پارہیں ، باقی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
٭ لوگ ببلو کے تایا کی بہت عزت کرتے ہیں، وہ ڈاکو ہیں ۔
٭ ٹونی کے پاپا لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔
٭ خان صاحب علاقے کی معتبر شخصیت ہیں وہ اسمگلر ہیں۔
٭ جناب دائم فارغؔکے12بچے ہیں، وہ شاعر ہیں ۔
٭ میں کچھ نہیں کرتا ، پدرم سلطان بُود

پھر لکھتے ہیں کہ ایسے پیشہ ور لوگ بے حد کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ یہ پیشے کے زور پر پیسہ کماتے ہیں اور پھر پیسے کے زور پر آخرت کمانے لگتے ہیں۔

’’پارلیمانی جمہوریت‘‘ کے موضوع کو حُسن انتظام کا ٹائٹل دیا ہے لکھتے ہیں ’’آزادکشمیر میں وہی طرز حکومت ہے جسے پارلیمانی طرز حکومت کہتے ہیں ۔ پارلیمانی حکومت کو پارلیمانی اس لئے کہتے ہیں کہ پارلیمان میں اس کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ہاں اگر وزارت امور کشمیر کہے کہ اس حکومت کی اینٹ کی اینٹ بجاؤ یا عدم اعتماد کی تحریک پاس کرو تو دوسری بات ہے ‘‘

پھر لکھتے ہیں کہ
’’پاکستانی بھائیوں کی طرح کشمیری بھائی بھی اعلیٰ سیاسی شعور کے حامل واقع ہوئے ہیں چنانچہ ووٹ دینے سے پہلے بڑی احتیاط کے ساتھ امیدواروں کا جائزہ لیتے ہیں بڑی سوچ بچار کرتے ہیں پھر بے دریغ اپنی برادری کے امیدوار کو ووٹ ڈال آتے ہیں‘‘ایک بات جو کبیر خان صاحب کی ہے کہ یہ انہی تحریروں میں یہ بڑی سے بڑی بات کہہ دیتے ہیں اور قارئین کو مایوس بھی نہیں کرتے ۔ ہمارے ارباب بست و کشاد کی طرح ، ویسے میں خود بہت عرصہ ’ارباب بست و کشاد‘ کو ’ارباب بستہء کشاد‘ پڑھتا رہا تا وقتکہ وہ مرحلہ نہیں آ گیا کہ مجھے خود حکمرانوں کے بستہء کشاد اٹھانے کا تجربہ نہیں ہو گیا اور یہ نہیں سیکھ لیا کہ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے کس طرح لگایا جاتا ہے اور انہیں کیسے جھوٹے خواب دکھائے ہوتے ہیں لیکن قابل تعریف ہیں ہمارے عوام جو خوابوں میں ہی مگن اور خوش رہتے ہیں ۔ اُس شخص کنبے کی طرح جنہیں ہر روز رات کو خواب میں گورے گوریاں نظرآتے سب گھر والے خوش ہوئے کہ وسیلہء غیب سے بیرون ملک خصوصاً یورپ کی سیر اور روزگار کا انتظام ہونے کو ہے انہوں نے احتیاطاً کبیر خان صاحب جیسے مرشد سے تعبیر پوچھی تو مرشد نے جواب دیا ’’بچو! سردیاں آ ریاں نے ، تہڈا لنڈے دیاں جرسیاں خریدنے دا ٹائم آ گیا اے‘‘

آج ہمیں کبیر خان درسی قاعدہ جدید پڑھانے کے متمنی ہیں اور اس پر یہ عجب بات ہے کہ اس قاعدے کو الف سے لیکر ی تک غیر سیاسی کہتے ہیں دراصل کبیر صاحب ہمیں ایسے جدید قاعدے پڑھا نا چاہتے ہیں کہ آج تک ہم نے جو قاعدے پڑھے ہیں وہ بھول جائیں اور انہوں نے جدید قاعدہ میں ہمیں جو پٹیاں پڑھائی ہیں ہم ان پر عمل کریں تا کہ ہماری وہ ’’فکری لام بندی‘‘ جو گزشتہ 70سال سے ہو رہی ہے اس میں دراڑیں ڈال سکیں ۔ ہم اپنی فکری لام بندی کی آپ کو دو مثالیں دیتے ہیں مثلاً اگر سی این جی کی قیمتیں پٹرول سے بڑھ جائیں تو ہم سرکاری اعلامیہ یوں جاری کرینگے ’’ عوام کو خوشخبری ہو کہ پٹرول کی قیمتیں سی این جی سے کم ہو گئیں ہیں ‘‘اگر اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں بڑھ جائیں تو ہم یہ جوازیت دیں گے کہ لوگو دیکھو ناں اگر کچھ چیزیں مہنگی ہوئی ہیں تو آخر روپیہ سستا بھی تو ہوا ہے ۔ اس فکری لام بندی کی وجہ سے ہم خارش اور کھجلی سے تنگ آ کر سرمنڈواتے ہیں تو اوپر سے اولے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ع سے عینک پڑھا ہے اور اس کی عملی صور ت یہی رہی ہے کہ ہم وہی عینک پہنتے رہے جو حکمرانوں کے مقاصد پورے کر سکیں ۔ لیکن یہ اپنے درسی قاعدہ میں ’’ع‘‘ سے جو پٹی پڑھا رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ لکھتے ہیں

’’عزیز بچو ہمارے ہاں جتنے عالی جاہ اور عباد (یعنی بندے) پائے جاتے ہیں اس ’ع‘ کی بدولت ہی پائے جاتے ہیں ۔ عالی جاہوں اور بندوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ عالی جاہ بڑے رُتبے ، بلند شان اور بڑے پائے کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے کسی عالی جاہ کو ’عالی جا‘ نہیں کہنا چاہیے بُرا مناتے ہیں

بچوں کو ’ع‘ سے ایک اور سبق پڑھاتے ہوئے ایک اور تجربہ بیان کرتے ہیں جو یقینا ان کا ذاتی تجربہ لگتا ہے کیونکہ یہ اگر ذاتی تجربہ نہ ہو تو اسے اتنے خضو و خشوع سے لکھا نہیں جا سکتا ہے ۔ لکھتے ہیں ’’عذاب کی طرح ’’ع‘‘ سے عتاب بھی ہوتا ہے ۔ ’عتاب‘ غُصے غضب اور قہر کو کہتے ہیں ۔ عتبا کی دو قسمیں ہیں عتاب الہٰی اور عتاب اہلیہ ۔ عتاب الہٰی عموماً اوپر سے نازل ہوتا ہے اور عتاب اہلیہ کا تعلق بھی مقام بالا سے ہی ہوتا ہے لیکن اس کا نزول نہیں ہوتا گھر سے گھر والے پر ٹوٹتا ہے۔ چنانچہ اس کی حدت اور شدت بھی سوا ہوتی ہے ‘‘

بھائی کبیر! اگر اہلیہ محترمہ دو ہوں تو یقینا یہ عتاب بھی دوبالا ہو کر ٹوٹتا ہو گا ہم سب جو اس ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں اس پر آپ سے اظہار ہمدردی ہی کر سکتے ہیں اور اپنی بھابھیوں کیلئے دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اس عمل میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی دے اور کبیر صاحب اﷲ کرے آپ کا زور قلم بھی اور زیادہ ہو تا کہ آپ کی اندر گجی مار سے ادب میں ایک نئی صنف کا اضافہ ہوا اور اس کا نام ’’اندر گُجا ادب‘‘ از کبیر خان نصاب میں شامل بھی ہو سکے۔
 

Akram Sohail
About the Author: Akram Sohail Read More Articles by Akram Sohail: 15 Articles with 11690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.