مسلمانوں کے زوال کی وجوہات کئی ایک ہیں جن میں ایک مغرب
سے مرعوبیت ہے جو بڑی حد تک درست ہے۔ چار سُو نظر دوڑائیں ، جتنی بھی
ایجادات ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں ، اُن کا سہرا غیرمسلموں کے سر ہے۔ چھوٹی
موٹی ایجادات سے لے کر خلائی اسٹیشن تک ، ہر جگہ آپ کو غیر مسلم نظر آئیں
گے۔ میرا ا مقصد یہاں قارئین کو اُن کی ایجادات سے بالکل مرعوب کرنے کا
نہیں ہے۔ اگر ہم سائنسی ادوار کو تین حصوں میں تقسیم کریں تو معلوم ہو گا
کہ اٹھویں صدی سے چودہویں صدی عیسویں تک مسلمان سائنس و تحقیق کے میدانوں
اپنے کارناموں کی بدولت میں غالب رہے۔ ابو علی حسن بن حسین ابن الہیثم (
965-1043 ) نے روشنی کی ماہیت ، کروی آئینے کے قوانین ، روشنی کا انعطاف و
انعکاس اور آنکھ کی بناؤٹ کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ابو
ریحان محمد بن احمد البیرونی (973-1048 ) ، جو کہ علم ہیئت کا ماہر تھا
انہوں نے کتاب الہند ، ودیا ساگر ، قانون مسعودی اور آثار الباقیہ جیسی
تصنیفات تحریر کیں۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی (780-850 ) نے ریاضی کے میدان
اپنی تحقیق سے تہلکہ مچایا اور اس کی تصانیف ’’حساب ‘‘ اور ’’ الجبر و
مقابلہ ‘‘ آج بھی یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔
نصیرالدین طوسی (1200-1273 ) نے ریاضی ، علم نجوم اور حکمت میں بیش بہا
کارنامے سرانجام دیئے۔ باقی دو ادوار ، یعنی آٹھویں صدی عیسویں سے قبل اور
چودہویں صدی عیسویں کے بعد بالترتیب یونانیوں اور مغرب کا غلبہ ملتا ہے۔
قدیم دور میں فیثا غورث ، ارسطو ، ارشمیدس اور ڈیموکریٹس کے نام سرفہرست
ہیں جب کہ مغربی دور میں گیلی لیو ، نیوٹن ، آئن سٹائن ، فیراڈے اور نیل
بوہر کے نام قابل ذکر ہیں۔
جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کرچکا ہوں کہ میرا مقصد قارئین کو غیر مسلموں
کی ایجادات اور کارناموں سے مرعوب و متاثر کرنے کا ہرگز نہیں ہے بلکہ مضمون
کے عنوان سے جیسے ظاہر ہے کہ یہاں پر میں اپنے ساتھ انٹرنیٹ پر پیش آنے
والا ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا
چیٹ کر رہا تھا کہ ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا جس نے مجھے اس بات پر قائل کیا
کہ ہم ترقی کے منازل میں مغرب سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور اُن کو ہم تک
پہنچنے میں نصف صدی یا یک صدی ضرور لگے گی۔ ہواکچھ یوں کہ میں ایم آئی آر
سی کے ذریعے چیٹ کر رہا تھا کہ میری ملاقات ’’اشرف فار یو ‘‘ سے ہوئی۔ اشرف
اکیس سالہ بی ایس کا طالب علم اور تعلق راولپنڈی سے تھا۔ ہمارے درمیان لگ
بھگ کوئی پندرہ ، بیس منٹ بات چیت ہوئی۔ اس دوران میں نے انفارمیشن میں
جاکر اُس کے متعلق معلومات دیکھیں۔ ابھی بات چیت جاری تھی کہ اشرف چیٹ روم
سے چلا گیا۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا لیکن دوبارہ وہ چیٹ روم میں نہیں
آیا۔ البتہ چند منٹوں بعد مجھے سونیا نامی نِک نیم سے پیغام موصول ہوا۔ میں
نے بات کرنے سے پہلے اس کی انفارمیشن چیک کی۔ اس کی انفارمیشن ’’ اشرف فار
یو‘‘ کی تھیں البتہ دونوں میں فرق صرف نِک نیم کا تھا، یعنی پہلے مخاطب
لڑکا اور اَب لڑکی تھی۔ مجھے زیادہ حیرت اس لئے بھی نہیں ہوئی کہ ہمارے
معاشرے میں فیک ( Fake ) ناموں اور آئی ڈی سے چیٹ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
میں نے سونیا کے پیغام کے جواب میں کہا۔ ’’ مسٹر اشرف ! کیا حال ہیں ؟ ‘‘۔
کچھ توقف بعد اس نے ندامت بھرے لہجے میں معذرت کی ۔ میں نے عرض کیا۔ ’’
مسٹر اشرف ! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے مغرب کی ترقی سے
پیداکردہ احساس کمتری اور مرعوبیت سے باہر نکال دیا ہے ‘‘۔ میں نے وضاحت
کرتے ہوئے مزید کہا۔ ’’ آپ نے چند منٹوں میں جنس کی تبدیلی کا جو کمال
دکھایا ہے وہ مغرب نے سال ہا سال کی تحقیق اور تجربات کے بعد حاصل کیا ہے
اور مجھے نہایت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آج ہم مغرب سے ترقی میں بہت دور
نکل چکے ہیں ‘‘۔ ان الفاظ کے ساتھ میں نے چیٹ روم سے باہر نکل آیا اور میرے
ذہن میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ’’ جو ق در جوق ‘‘ کے یہ الفاظ گردش
کرنے لگے۔ ’’ امریکہ اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمان پر پہنچنے کی
کوشش کی۔ ابھی وہ خدا تک پہنچنے کے لئے خلائی شٹل کا سہارا لینے کا منصوبہ
بنا ہی رہے ہیں جب کہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہر سال
بذریعہ ’’ پتنگ ‘‘ کئی لوگ خدا کے پاس پہنچ جاتے ہیں ‘‘۔ |