ہمارا عدالتی نظام

یہ شایدانسانی فطرت ہے یا ماحول کا اثر ہو تا ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو سچا ، ایماندار ، محب وطن ، ذہین ،ماہر اور عقل کل سمجھتا ہے کہ جو مطالعہ میرا ہے وہ علم کسی دوسرے کا نہیں اور جو میں سوچتا اور کرتا ہوں وہی درست اورٹھیک ہے ۔ بس باقی دنیا غلط اور بے وقوف ہے۔ مطالعہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ہر انسان وقت کیساتھ ساتھ سیکھتا اور آگے بڑ ھتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وقت بہتر ین استاد ہے شاید اسلئے کہا کیا ہو کہ وقت بہتر ین استاد ہے کہ جو وقت یعنی عمر اور ماحول ہمیں سیکھتا ہے وہ کوئی دوسرا استاد نہیں سیکھا سکتا ۔ زندگی کی انہی تعلیمات میں کچھ ایسے ہیں کہ اس کو مثال کے طور پر بیا ن کیا جاسکتا ہے کہ جس انسان کے پاس گاڑی نہ ہو ان کو کیا معلوم کہ گاڑی کے کیا خرچے ہیں اور گاڑی چلانے والے کے کیا مسائل ہوسکتے ہیں ؟ جس طرح شادی کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی محبت اور والدین کی قدر کیوں اہم ہے ۔ ذمہ داریا ں کس بلا کانام ہے یعنی جن کا جو کام ہے وہ بہتر سمجھ سکتا ہے ۔اس طرح دیکھا جائے جو عدالتوں میں کیسز چل رہے ہوتے ہیں ان کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو وکیل ہو اور عدالتوں میں موجودہو کہ ججز کس طرح فیصلے کرتے ہیں ۔ آئین و قانون کیا ہوتا ہے ججز کے پاس کونسے اختیارات اور کس حد تک ان اختیارات کو استعما ل کیا جاتا ہے ۔ یعنی ججز کے سامنے دو وکیل کیس پیش کرتے ہیں ، سوال وجواب ہوتا ہے پھر جج قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اب یہ جج پر انحصار کرتا ہے کہ انہوں نے ملزم کو پانچ سال کی سزا دینی ہے یا اٹھ اور دس سال کی سزا۔لیکن یہ تب ممکن ہے جب شواہد موجود ہو اور جرم ثابت ہوجائے لیکن اگر جرم ثابت نہ ہوتو ملزم بری کیاجاتا ہے ۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے اپیل پر چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ نواز شریف کی سزا جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کی تھی وہ زیادہ دیر دتک نہیں رہ سکتی ۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججز نے کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق نواز شریف کو رعایت دی تھی کہ نیچے عدالت جائزہ لیں لیکن نیچے عدالتیں کیسے کام کرتی ہے ۔یہ نواز شریف کیس میں نہ صرف ثابت ہوا بلکہ اس سے پہلے کئی کیسز میں یہ ثابت ہوچکا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے نواز شریف سزا کومعطل کرنے پر میں پہلے کالم لکھ چکا ہوں کہ انہوں نے یک طرفہ فیصلہ کیا ہے ، سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس اور وکیلوں سے سوالات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نواز شریف کو دوبارہ اس کیس میں گرفتا ر کیا جاسکتا ہے ۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اسیہ مسیح کیس جو تقریباً دس سال سے عدالتوں میں تھا اور وہ خاتون دس سال سے جیل میں ہے ۔جس پر نیچے عدالتوں یعنی ضلعی عدالت نے سز ائے موت سنائی تھی اور بعد ازاں اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ سزا معطلی کے خلاف سپریم کورٹ میں فیصلہ آیا جس نے نیچے عدالتوں کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور اسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ اسیہ مسیح کے فیصلے پر ہمارے بعض دینی حلقوں نے احتجاج شروع کیا جو تین دن تک جاری رہا ۔جس میں پورے ملک سمیت پنجاب کے بعض شہروں اور پنڈی سے اسلام آباد آنے کا مین سڑک بند کی گئی تھی ۔ اس دوران سرکاری سمیت عام لوگوں کے املاک کو اربوں نقصان پہنچایا کیا ۔ گاڑیوں ، موٹر سائیکل، دوکانوں کو جلایا کیا ۔ وفاقی حکومت نے تیسرے دن معاہدہ کرکے معاملے کو ختم کیا لیکن اس دوران بہت سے سوالوں نے جنم دیا کہ آیا یہ فیصلہ درست نہیں تھا ؟ججز نے کسی کے کہنے یا دباؤ پر فیصلہ تبدیل کیا ؟ یا خدا نخواستہ فیصلہ کرنے والے ججز مسلمان نہیں تھے ۔ اب تک کے تحقیقات کے مطابق ان میں کوئی بات درست نہیں بلکہ فیصلہ پڑھ کر معلوم اور فخر ہوتا ہے کہ ہمارے جج صاحبان دین کا کتنا علم رکھتے ہیں اور کتنا گہرائی سے تمام زوایوں سے تاریخ کے اوراک سے فیصلے کرتے ہیں ۔

عشق رسول تمام مسلمانوں کا ایمان کا حصہ ہے اور جو آدمی اس بارے میں شک وشبہ بھی رکھتا ہو وہ بھی نقصان میں ہے یعنی اسلام کی تعلیمات یہ ہے کہ ہم اپنے نبی آخرزمان سے اپنے ماں باپ ، بیوی بچوں سے زیادہ محبت کریں اور یہ تمام مسلمانوں کا یقین ہے ۔یہی یقین ہمارے مسلمان ججز کابھی ہے جنہوں نے اسلام کی روشنی میں فیصلہ دیا کہ اسیہ بی بی پر جرم ثابت نہ ہو ۔گو اہان کے بیانات میں تضاد موجود ہے اور اسلام کسی بھی مجرم کو بغیر ثبوتوں کے سزا نہیں دے سکتا۔ اس واقعے میں حقائق کو چھپایا گیاہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے اسلامی ملک کے مسلمان ججز کے فیصلوں پر بھی ہم یقین نہیں رکھتے اور خود ہی وکیل ، مودعی اور جج بن جاتے ہیں کہ نہیں انہوں نے جرم کیا ہے۔ جو اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔اسیہ بی بی انکاری ، گواہان انکاری اور بیانات میں تضاد موجود لیکن ہم یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے معاشرے کی یہ خطرناک المیہ بناتا جارہاہے کہ اسلام آبادکیلئے اسلام کے نام پر سیا ست کرتے ہیں اور عام لوگوں کو اپنے غلط معلومات یا جذباتی بیانات سے گمراہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ بھی قانون کے نافرمان بن جاتے ہیں اسلئے قرآن واحادیث کی احکامات ہے کہ تم لوگ اپنے حکمرانوں کے حکم مانوں گے ۔ حکمران تمام معاملات کے ذمہ دار ہو تے ہیں وہ صحیح ہو یا غلط اس کا جواب ہم عام لوگوں نے نہیں بلکہ حاکم وقت نے دینا ہوتا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا نظام سیاست ٹھیک نہیں جنہوں نے ادارے تباہ کیے پہلے ججزبہت سخت مقابلے اور امتحانات کے بعد قابل لوگ جج بنتے تھے اب سفارشی کلچر نے جج بنا دیے جو نیچے عدالتوں میں قانون کا ادراک اور بغیر شواہد کے چھان بین کے فیصلے کرتے ہیں جس میں بعد ازاں سپریم کورٹ کے فاضل ججز کو کالعدم قرار دینا پڑتا ہے۔ بعض نادان دوست کہتے ہیں کہ نیچے عدالتوں نے کیوں فیصلہ دیا ۔ نیچے عدالتوں کا نظام اگر درست ہوتا تو سپریم کورٹ کی ضرورت بھی نہ ہوتی یا ان میں لاکھوں کیسز موجود نہ ہوتے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے بارے میں بھی یہ حق دیا ہے کہ جب فیصلے پر کوئی اعتراض ہوتو دوبارہ اپیل کیا جاسکتا ہے نئے ثبوتوں اور نشاندہی کے ساتھ کہ ججز نے یہاں غلطی کی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر فتوے نہیں لگائے جاسکتے کہ بس صرف مسلمان میں ہوں اپ نہیں اور ہم جو سوچتے ہیں وہی فیصلہ کرو۔ میں نے آج تک فیصلے پر اعتراض کرنے والے جتنے افراد سے بات کی ہے تو سب نے یہی کہا ہے کہ ہم نے فیصلہ نہیں پڑ ھا ہے ۔ خدا کیلئے فیصلہ پڑ ھ لیں اس کے بعد تنقید کریں۔ دوسرااہم مسئلہ ایسے کیسز کو نیچے عدالتوں کی بجائے صرف سپریم کورٹ میں ٹرائل کرنا چاہیے تاکہ کوئی مجرم سزا سے بچ نہ سکیں یا کسی بے قصور کو دس اور بیس سال جیلوں میں سزا نہ بھگتنا پڑیں۔
 

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203227 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More