اقبال کا شاہین

نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہوا کرتی ہے نوجوان نسل کا ملکی ترقی اور بقا و سلامتی میں اہم کردار ہے اگر یہی نوجوان نسل گمراہی کے راستے پہ گامزن ہو جاۓ تو ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے اور ناکامیاں اس قوم کا مقدر بن جاتی ہیں. علامہ اقبال نے نوجوان نسل کی بھرپور طریقے سے رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں ان کا اصل مقام پہچاننے کی تلقین کی ہے اقبال خود انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے اور وہاں زندگی گزارنے کے باوجود نہ اللہ اور اس کے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کم ہوئی اور نہ ہی اسلام سے دور ہوۓ اور وہ نوجوانوں کو بھی یہی پیغام دیتے رہے کہ کامیابی اسی میں ہے کہ مذہب اور اقدار کا دامن نہ چھوڑا جاۓ اور فرنگی رسم و رواج سے دور رہا جاۓ. اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کی عکاسی خوب احسن طریقے سے کی ہے اقبال نہ صرف شاعر تھے بلکہ ایک عظیم مفکر بھی تھے اور شاعری ان کے فکر و مطالعہ کا نچوڑ ہے. ان کی شاعری زندگی کے ہر شعبے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ان کی ملک و قوم کے لیے خدمات قابل فخر ہیں ان کی جتنی تعریف کی جاۓ اتنی کم ہے. پروفیسر آل احمد سرور نے کیا خوب کہا ہے.

"اقبال کا فن وہ سمندر ہے جس کا صرف ساحل سے نظارہ کافی نہیں ہمیں اس کی گہرائی میں جانا چائیے تاکہ اس کے موتیوں تک پہنچ سکیں. (اقبالیات سرینگر 1943)
اقبال نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

شاہیں کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس پرندہ میں اسلامی فخر کی کل خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ نوجوانوں کو بارہا تلقین کرتے ہیں کہ وہ شاہیں کے اوصاف اور عادات اپنائیں اس پرندے کی خودداری، غیرت مندی، خلوت پسندی اور بلند پروازی و دور بینی کو اپنائیں. اقبال نوجوان کو شاہین بننے کی تلقین فرماتے تھے کیونکہ شاہین قناعت کا قائل نہیں بلکہ وہ حرکت کو زندگی سمجھتا ہے کیونکہ جدوجہد میں ہی کامیابی کا راز پنہاں ہے اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ ایک ہی مقام پر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے نہ بیٹھیں اسی لیے وہ کہتے ہیں..
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں

اقبال کا شاہین مرد مومن کی علامت ہے ان کا کہنا ہے کہ مسلمان عیش و عشرت کے لیے یا محل میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں آۓ بلکہ اس لیے کہ وہ رضاۓ الہی کے حصول اور دین کی سربلندی کے لیے دنیا میں پھیل جاۓ اور بیابان کی تیز و تند ہواؤں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرے اور خود اعتماد جفاکش بن جاۓ اسی لیے اقبال کہتے ہیں..
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

شاہیں خود دار اور غیرت مند ہوتا ہے وہ اپنا شکار خود کرتا ہے وہ کبھی دوسروں کے ہاتھ کا شکار نہیں کھاتا وہ بھوکا رہ سکتا ہے مگر مردہ چیز کبھی نہیں کھاتا وہ دوسروں کے سہارے پر زندگی گزارنا موت سمجھتا ہے اسی لیے وہ نوجوان کو بھی یہی مشورہ دیتے کہ کبھی بھی کسی پہ بوجھ نہیں بننا بلکہ اپنا رستہ خود بنانا ہے بقول اقبال
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

اقبال کا شاہین خلوت پسند ہوتا ہے وہ گلشن سے دور بیاباں میں رہنا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خلوت میں رہنے سے خودی مجروح نہیں ہوگی اس لیے اقبال اپنے نوجوان کو بھی خلوت پسندی کا درس دیتے ہیں اور شاہین کی زبان میں فرماتے ہیں.
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائیں بیاباں سے ہوتی ہیں کاری
جواں مرد کی ضربت غازیانہ

نوجوان اقبال کی آنکھوں کا تارہ تھے اسی لیے وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور اپنی شاعری کے ساتھ ان کو ہمیشہ تلقین فرماتے رہتے ہیں اور انہیں صحیح رستے پہ چلنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں ان کی نظر میں نوجوان شاہین کی مانند ہے کیونکہ شاہین دور بین ہوتا ہے اور تلاش و جستجو میں کامل ہے اسی لیے وہ دور بیٹھا چھوٹے سے چھوٹے پرندے کو بھی دیکھ لیتا ہے اور اس کا شکار کر لیتا ہے اسی لیے اقبال کی بھی آرزو ہے کہ مرد مومن کی بھی شاہین کے جیسی دور بینی آنکھ ہو جاۓ اقبال فرماتے ہیں
چیتے کا جگر چائیے شاہین کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش فرہنگ

اقبال نے نوجوان نسل کو قوم کی تعمیر و ترقی کا اہم حصہ قرار دیا ہے اور آج یہ نوجوان فرنگی بننے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن اقبال کا شاہین اللہ اور اس کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اور مذہب کا پرچار کرنے والا ہے اقبال نے اپنی شاعری سے نوجوانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور ملک کے لیے کچھ کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ جس ملک کی نوجوان نسل صراط مستقیم پہ چلے گی اور نیک نیتی کے ساتھ محنت و کاوش سے کام لے گی تو وہ ملک اسلام کا س سے بڑا قلعہ بن جاۓ گا. اقبال کی شاعری کو نہ صرف مشرق والے سراہتے ہیں بلکہ مغرب میں بھی ان کے فلسفہ کو خوب پزیرائی حاصل ہے انہوں نے نوجوان نسل کی بیداری اور کردار سازی کے لیے خوب کاوشیں کیں وہ فرماتے ہیں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئی صبح شام پیدا کر

ہمیں بھی اقبال کا شاہین بن کے محنت اور لگن سے کام لینا ہو گا اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر کے اقبال کا خواب پورا کرنا ہو گا تاکہ ہم پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکیں..
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
پاکستان پائندہ آباد
 

Saleh Abdullah
About the Author: Saleh Abdullah Read More Articles by Saleh Abdullah: 5 Articles with 4691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.