اقبال تیری عظمت کو سلام

 اتنی عظیم شخصیت پہ لکھتے ہوئے محسوس ہو رہا کہ الفاظ ساتھ دیں گے بھی یا نہیں ؟
اتنا بڑا شاعر کہ جس کی شاعری نے برصغیر کے طول و عرض میں اک آگ سی لگا دی۔
قیام پاکستان سے قبل مسلمانان برصغیر کی اکثریت تو شاید خود کو بھلا ہی بیٹھی تھی ۔
ان کے حالات ایسے تھے کہ سوائے چند ایک کے باقی سب غربت کی چکی میں پس رہے تھے اور ان پڑھ تھے کیونکہ ان سے بنیادی حقوق چھین لئے گئے تھے۔
بنیا چونکہ چالاک و ہشیار ہے وہ تو انگریز سے کچھ حاصل کر لیتا تھا لیکن مسلمانوں نے تعلیم کے میدان بھی چھوڑ دیے تو وہ وہ اپنے اپنی شناخت ہی بھلا بیٹھے۔
وہ انگریز کو قابض ،ہندو کو ہندوستان کا مالک اور خود کو نچلے درجے کا انسان سمجھنے لگے تھے۔
تبھی اقبال نے مسلمانوں کو خودی کا درس دیا
وہ اپنی شناخت کو مذہبی طور پہ بھی بھلانے لگے تھے ۔
ہندوؤں کے رنگ میں رنگے جا رہے تھے ۔ عقائد میں بڑا فرق آنے لگا تھا۔
بکھرے ہوئے تھے۔ ہندووں کی طرح ذات پات کے چکروں میں پڑ گئے تھے ۔
تب ہی اللہ نے مسلمانان برصغیر میں 9 نومبر 1877 کو اقبال جیسا سچا کھرا ، زیرک ، معاملہ فہم مسلمانوں کے لئے درد رکھنے والا اعلی تعلیم یافتہ انقلابی شاعر علامہ اقبال پیدا کیا۔ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی پھر اعلی تعلیم کے لئے یو رپ بھی گئے لیکن وہ مسلمانوں کی حالت زار سے لا تعلق نہ رہ سکے۔ بلکہ وہ مسلمانوں کا ماضی یاد کرتے اور اقبال نے مسلمانوں کو بھی ان درخشاں ماضی یاد دلایا اور مذہب بھی یاد دلایا۔
علامہ اقبال ویسے تو بیرسٹر بھی تھے اور فلسفی بھی لیکن ان کی وجہ شہرت ان کی شاعری بنی۔
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے مذہب سے عقیدت کا اظہار اور اس کی اہمیت کو اپنی شاعری میں یوں بیان کرتے ہیں
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبے باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
اور کہا
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز سلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں خو چھوڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی ہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اقبال کی شاعری عام شعراء سے ہٹ کر تھی ۔ان کی شاعری مرد و عورت کے عشق کے گرد نہ گھومتی تھی بلکہ انقلابی تھی ۔
ان کی شاعری میں مسلمانوں کا درد بولتا تھا۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کو جھنجوڑا ۔
ہر درد مند کو رونا میرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگا دے
اور
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقام رنگ و بو کا راز پا جا
اقبال کی تڑپ اور لگن ایک ہہ تھی کہ مسلمان بیدار ہو جائیں اور دنیا کو اپنی الگ شناخت کروائیں ۔
وہ مسلمانوں کو عروج کی دیکھنا چاہتے تھے۔
اور نوجوانوں کو خاص طور پہ وجہ عروج و زوال سمجھتے تھے
اسی لئے مسلمان نوجوانوں کو شاہین کا خطاب دیا اور اس کو بیدار کرنے کی کوشش کی کیونکہ شاہین بہت تیز سمجھدار پرندہ ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں پہ گھر بناتا ہے ۔اور میلوں اونچائی سے بھی اپنا شکار دیکھ لیتا ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصرسلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال نے بچوں کے لئے بھی نظمیں لکھیں ۔ یعنی وہ زندگی کے ہر طبقے میں ایک خاص رنگ دیکھنا چاہتے تھے ۔
و9 نوجوانوں کو اس ماضی کی طرف لے کر جانا چاہتے تھے جہاں مسلمانوں نے علم و عمل سے دنیا کے اندھیرے دور کیے تھے جہاں مسلمانوں نے دنیا کی راہبری کی
تھی۔
ان مسلمانوں نے دنیا میں اللہ کا پیغام پھیلایا علم عمل کے ذریعے ۔اور دنیاوی ترقی کے عروج پہ پہنچ گئے۔
وہ ہر میدان میں چھائے ہوئے تھے۔ سائنس ، فلسفہ ہو یا جہاد کا میدان کسی بھی میدان میں پیچھے نہ تھے ۔
اقبال نے قرآن مجید کے ترجمے کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباںہوگا عرش بریں پر
وہ مسلم قوم کو کہتے تھے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
یہ قرآن پاک کے ترجمے سے ماخوذ ہے
انھوں نے قوم کو عمل پہ زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ ہے نہ ناری ہے
جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان بیدار تو ہو رہے ہیں لیکن چالاک بنیا مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تو انھوں نے 1940 میں ایک جلسے کے دوران یہ مشورہ دیا کہ مسلمان اکثریت والے علاقے ملا کر مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست قائم کر دی جائے۔
اور پھر واقعی انقلاب آ گیا اقبال نے مسلمانوں میں وہ جذبہ پیدا کیا کہ چند سالوں میں ہی پاکستان جیسی عظیم ریاست معرض وجود میں آ گئی۔
علامہ اقبال کے صرف مسلمان ہی دلدادہ نہ تھے بلکہ پوری دنیا میں آپ کی شاعری پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔
اہل مغرب آپ کی شاعری کی کتابوں کے ترجمے کراتے ہیں۔
علامہ اقبال نے سب سے پہلے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا خواب دیکھا ۔
آپ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ انھیں دنوں ہندو راج پال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی تو ایک ترکھان کے بیٹے علم دین نے اسے جہنم وصل کر دیا ۔
اس وقت کی انگریز حکومت نے علم دین کو پھانسی دی تو آپ نے بہت دکھ سے کہا
"ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا تے اسی ویکھ دے رہ گئے" ۔
انھوں نے ہی مسلمانوں کے لئے مطالبہ کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلم اکثریت والے علاقے سرحد ، سندھ ،پنجاب اور بنگال کو ملا کر ایک الگ ملک بنا دیا جائے ۔
آپ نے قیام پاکستان کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کا بھر پور ساتھ دیا ۔
آپ کی شاعری نے مسلمانان برصغیر میں ایک بیداری کی ایسی لہر پیدا کی تھی جس کا نتیجہ پاکستان کے قیام کا عمل میں آنا نکلا تو پا کستان نے انھیں شاعر مشرق کہا اور
پاکستان کا خواب دیکھنے کی وجہ سے مصور پاکستان بھی کہا۔
آپ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے قبل ہی21اپریل 1938 میں وفات پا گئے ۔اور مسلمانان برصغیر کا یہ عروج نہ دیکھ پائے اللہ رب العزت انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
آمین
آج پھر ضرور ہے اقبال کے افکار و نظریات عام کرنے کی۔ ہمیں نئی نسل کو اقبال کے افکار سے روشناس کرانا ہوگا تاکہ وہ باشعور ، اپنی پہچان پہ فخر کرنے والی اور علم و عمل میں آگے جانے والی قوم بن سکیں ۔

 

Isha Naim
About the Author: Isha Naim Read More Articles by Isha Naim: 13 Articles with 11044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.