انیلہ افضال
علامہ محمد اقبال ؒ کے فلسفہ خودی پر بات کرنے سے پیشتر لفظ " خودی" کے
معنی کا تعین کرنا ضروری ہے کیونکہ اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے "
خودی" کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے لیے اگر لغت کا سہارا لیا جائے تو مندرجہ ذیل
نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل
معانی رکھتا ہے
ا) انانیت، خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود رائی
ب) خود غرضی
ج) غرور، نخوت، تکبر
’’خودی‘‘ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو
فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے
احساسِ غیرت مندی کا ،جذبہ خوداری کا ،اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا،
اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا
ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا
تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ایک حدیث قدسی کا مفہوم کچھ
یوں ہے۔
" ایک تیری (انسان) رضا ہے اور ایک میری (خالق کائنات) رضا ہے تو چاہتا ہے
وہ ہو جائے جو تیری رضا ہے مگر ہوگا وہی جو میری رضا ہے اور اگر تو میری
رضا میں راضی ہو جائے تو جو تیری رضا ہے وہی میری رضا ہے"۔
سبحان اﷲ! کیا جامع بات ہے اس ایک بات میں ساری باتیں سما گئی ہیں ۔ اسی
طرح علامہ محمد اقبال ؒکا فلسفہ خودی اس ایک شعر میں سما جاتا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا! تیری رضا کیا ہے
اقبال کے یہاں خودی سے مراد خود پسندی یا تکبر ہرگز نہیں ہے بلکہ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نا بن اپنا تو بن
یعنی انسان کا تعلق اپنی بنیادی" اکائی "سے اس قدر مضبوط ہونا چاہیے کہ
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگی
والا معاملہ ہو جائے، اقبال کے مطابق
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یوں سمجھ لیجئے کہ علامہ محمد اقبال ؒ کے نقطہ نظر سے ’’خودی‘‘ زندگی کا
آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و
زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی
کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اقبال نے ان کا ذکر
اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اﷲ کا اصل راز خودی ہے توحید، خودی کی
تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی، توحید کی محافظ ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اﷲ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اﷲ
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے
’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا،اسنے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی بھی اس بات کا غماز ہے کہ برصغیر کے مسلمان
انگریزوں اور ہندؤوں کی غلامی میں کئی سو سال تک رہنے کی وجہ سے اپنا
تشخص،اپنی پہچان کھوچکے تھے۔جب کہ ہماری تعلیمات ہمیں احکام الہی کی
بجاآوری سکھاتی ہیں جن سے دنیا و آخرت میں ہم فلاح پاسکیں۔ایک مؤمن غافل
نہیں ہوسکتا۔اقبال نے اپنے فلسفے سے مسلمانوں کو حوصلہ بخشا،آپ کے الفاظ اس
قدر پرتاثیر تھے کہ مسلمانوں میں ولولہ اور نئی زندگی دوڑ گئی۔اور ایسی
تحریک چلی کہ بالآخر دنیا نے مسلمانوں کا جذبہ ایمانی پاکستان کی صورت میں
تسلیم کیا۔
خودی کے زور سے دنیا پی چھا جا
مقام رنگ و بوْ کا راز پاجا
برنگ بحر ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھنچتا جا
دراصل اقبال کا فلسفہ خودی اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس موضوع کو چھوتے
ہی ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس نہایت شدت سے ہوتا ہے اس دور کے جس بھی
سرے کو تھام لیں نئی جہتیں ہی ہمارے سامنے آشکار ہوتی ہیں اقبال کی اس ایک
اختراع کے سامنے ہم خود کو بے بس و بے کس محسوس کرتے ہیں - یہی وہ چنگاری
ہے جس نے ہندوستان کے طول و عرض میں ایک ایسی آگ بھڑکا دی تھی کہ جس میں تپ
کر امت مسلمہ کندن ہو گئی تھی -
"ڈاکٹر افتخار صدیقی’’ فروغِ اقبال ‘‘ میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں
رقمطراز ہیں"
’’ نظریہ خودی، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تمام
پہلوؤں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اقبال نے ابتداء
ہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز
نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس اور خود شناسی مراد ہے۔‘‘
اب مزید کیا لکھوں دماغ غور و فکر سے عاری ہے اور قلم تحریر سے انکاری ہے
بس آج کل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط یہی کہوں گی کہ
خودی نا بیچ فقیری میں نام پیدا کر
|