تحریر:مشعل اسلام
اسلامی تعلیمات میں اخلاق حسنہ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب
تک انسان اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے مزین نہیں کرلیتا، وہ صحیح معنوں میں
انسان نہیں بن سکتا کہ انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچنے کے لیے اخلاق
حسنہ کی ضرورت ہے۔ہر انسان کا اﷲ تعالی سے ایک ایسا رشتہ ہے جو تمام رشتوں
سے زیادہ مستحکم اور دائمی ہے بالخصوص مسلمان کا رشتہ۔ جب انسان کلمہ پڑھ
کے مسلمان ہوتا ہے تو وہ ہر کام میں اﷲ و رسول کے احکامات کو مد نظر رکھ کے
اپنے شب و روز بسر کرتاہے ۔
ایک مسلمان کا اﷲ سے جو تعلق ہے وہ جتنے اخلاق حمیدہ میں اعلی مقام پہ فائز
ہوگا اس کے درجات اتنے ہی بلند اور اپنے مالک کی نظر میں بہتر عبد قرار
پائے گا ۔بحیثیت مسلمان ہمارے شب وروز اس کاوش میں صرف ہونے چاہیے کہ ہم
کیسے قرب الہی حاصل کریں۔
بد اخلاق، جھگڑالو، ظالم، امانت میں خیانت کرنے والا، جھوٹا، چغلخور، ناپ
تول میں کمی کرنے والے کو اﷲ تعالی ناپسند فرماتے ہیں اس کے برعکس جو اچھے
اخلاق والا، سچ بولنے والا،مخلوق انسانی کو نفع پہنچانے والا ،خدمت خلق
کرنے والا اورامانت دار، منصف ،سخی انسان اﷲ کو پسند ہے ۔ فخر دوعالم اخلاق
مجسم نبی اقدس ﷺنے فرمایا:’’بیشک میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا
گیا ہوں‘‘۔ (مسند بزار)اسی طرح ایک مرتبہ نبی ﷺسے پوچھا گیا کہ،’’کون سا
مومن کامل ایمان والا ہے‘‘؟
فرمایا،’’جو اچھے اخلاق والا ہو‘‘۔ایک اور جگہ فرمایا،’’بیشک مکارم اخلاق
اہل جنت کے اعمال میں سے ہیں ‘‘۔
اخلاق اور آداب لازم ملزوم ہیں کوئی انسان آداب کی رعایت کرتا ہے تو دراصل
یہ اخلاق کا نتیجہ ہے۔ جب ہم اچھے اخلاق اپناتے ہیں تو چھوٹے بڑے، اپنے
پرائے، ہمسایہ و رشتے داروں کا ادب کرنا ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہماری
طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے ۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اخلاق
کسے کہتے ہیں؟ ایک انسان کے اندر جو اچھی صفات ہونی چاہیے، سچائی، امانت
داری ،سخاوت وغیرہ اور جن بری باتوں سے پاک و صاف ہونا چاہیے جھوٹ،غیبت
وغیرہ ان کو اخلاق کہتے ہیں ۔
اسلام ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں اپنانے پر اجر کثیر کا
وعدہ بھی ہے یعنی ایک مسلمان اگرسچ بولتا ہے، سچوں کے ساتھ رہتا ہے، اچھی
صحبت اختیار کرتا ہے تو ایسا کرنے کا اسے اس کے رب نے حکم دیا ہے اﷲ تعالی
فرماتے ہیں،’’سچ بولنے پہ وہ روز قیامت صدیقین کی صف میں شامل ہوگا صلہ
رحمی و امانت داری، مہمان نوازی، حیا کا ہونا، پڑوسی کے حقوق ادا کرنا ،حاجت
مندوں کی مدد کرنا، احسان کا بدلہ دینا ،ساتھیوں کی مدد کرنا وغیرہ یہ سب
مکارم اخلاق ہیں جن کو اپنے اندر پیدا کرنے کا حکم اﷲ اور نبیﷺ نے دیا ہے ۔
آج اکثریت کی سوچ ہی میڈیا کے ذریعہ ہائی جیک ہوچکی ہے۔ امت کی اکثریت کی
زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف دنیاوی تعلیم و ترقی پر صرف ہوتا ہے مادی زندگی
کی سہولیات کا حصول ہمارا مقصد حیات بن چکا ہے۔ اپنی حیات کا تین فیصد عصری
تعلیم پھر اس کے بعد ذریعہ ء معاش اور بعدہ ایک خوبصورت ہم سفر کی تلاش اس
کے بعد بال بچوں کا ہونا پھر ان کی پرورش اور ان کی شادی آبادی تعلیم میں
لگادیتا ہے حتی کہ عمر عزیز کی تلچھٹ ہی باقی رہ جاتی ہے۔اﷲ تعالی نے دنیا
میں بھیجنے کا جو مقصد بتایا تھا، اسے ثانوی حیثیت سے بھی جب گئی گزری
حیثیت ملے گی تو پھر انسان اسلام کا مطالعہ اور علوم قرآنی و احادیث کا علم
اور ان کی روشنی میں اپنی زندگی کی گاڑی چلانا کب سیکھے گا؟
آج ہم نے اپنے دین کو صرف بعد پیدائش کان میں آذان دینے اور بعدالمرگ نماز
جنازہ ادا کرنے تک محدود کردیا ہے۔ آج جابجا والدین اولا دکی نافرمانیوں سے
تنگ نظر آتے ہیں کیوں کہ ہم نے اپنی اولاد کی تربیت مذہبی خطوط پر کرنا
چھوڑدی ہے۔ جب ہم نے بچے میں وہ اوصاف پیدا ہی نہیں کیے تو بچہ کیسے
فرمانبردار ہوگا۔ ہم لوگوں کے نزدیک اخلاق حسنہ کی تعریف فقط دوسروں سے
مسکرا کر بات کرنا رہ گئی ہے حالانکہ بغض، کینہ، حسد، تجسس، نفاق سے پرہیز
بھی اخلاق میں شامل ہے۔ ہم آخرت میں اﷲ کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو
ہمیں چاہیے کہ ہماس دنیائے فانی کی فکر چھوڑ کر آخرت کی تیاری کریں۔
|