تحریر ۔۔۔علی رضا رانا
جس طرح شہریوں کو مہنگائی ، بد نظمی اور دوسری مشکلات نے پریشان کیا ہوا ہے
بالکل اسی طرح چارجڈ پارکنگ کی وجہ سے بھی عوام کو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی
ہے جگہ جگہ شاپنگ سینٹرز، ہسپتالوں، مارکیٹوں اور دوسری اہم عمارات کا قیام
عمل میں آچکا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی ضرورتوں کے تحت باہر
جاتے ہیں اور مختلف جگہوں پر گاڑیاں پارک کرتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ابھی
اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی نہیں سکے کہ رقم وصول کرنے والے ایک
دو نہیں کئی مافیا کے لوگ دوڑے بھاگے چلے آئے۔ صاحب اس جگہ ذرا اور آگے اس
طرف موڑ لیں بالکل ٹھیک ہدایت دینے کے بعد اس شخص نے رسید بک سے رسید کاٹی
اور 20سے30روپے تک بڑی آسانی سے وصول کرلیے کچھ اعتراض کیا جائے تو جواب
ملتا ہے کہ ہم تو بلدیہ یا کنٹونمنٹ کے ملازم ہیں اب آپ ہوگئے لاجواب کہ اس
بیچارے کی کیا غلطی؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے لیکن وہ بھی
بیچارے نہیں ہیں ان کا بھی مختلف پارٹیوں سے تعلق یا پھر آپس میں ہی طے کر
لیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہوں پر پارکنگ نہیں ہے وہاں ہمارے لوگ پارکنگ
وصول کریں گے اور پھر طاقت کے بل پر وہ معصوم شہریوں کو بڑی آسانی سے لوٹتے
ہیں اور پھر اپنا اپنا حصہ تقسیم کرلیتے ہیں اس تقسیم میں بلدیہ حیدر آباد
سمیت ٹریفک پولیس بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے
کہ پارکنگ کنٹریکٹر اپنے اپنے مختص کی ہوئی پارکنگ کی حدود سے اکثر تجاوز
کرتے ہوئے آمد و رفت کے آنے جانے والے مین روڈ پر بھی گاڑیاں کھڑی کرواکر
پیسے وصول کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک بھی جام رہتا ہے بعض اوقات اتنا
شدید ٹریفک جام ہوتا ہے کہ ایمبولینس بھی پھنس کر رہ جاتی ہے ۔ ویسے سچی
بات تو یہ ہے کہ پولیس تو ہر بڑے کاموں میں ابتدا سے لے کر انتہا تک شامل
رہتی ہے بس اسے اپنا حصہ ملنا چاہیے۔ باقی جو جس کا دل چاہے کریں۔ آج کل
جدید عمارتوں میں ناکہ پارکنگ ایریا ہوتا ہے بلکہ گارڈ بھی ان جگہوں پر
تعینات کیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی پارکنگ کے حوالے سے کیوں رقم چارج کی
جاتی ہے؟ یہ کھلم کھلا ناانصافی ہے اس طرح یہ لوگ ایک دن میں ہزاروں روپے
کما لیتے ہیں اور شہریوں کی جیبیں خالی کردیتے ہیں کیونکہ عیدین اور چھوٹے
بڑے مواقع پر ایک ہی گھر سے کئی بار خریداری کے لیے مارکیٹ جانا پڑتا ہے تو
ہر دفعہ خریدار کو گاڑی پار کرنے کے پیسے دینے پڑتے ہیں اس طرح پورے دن میں
ایک ہی گھر سے 100سے150روپے آسانی سے کمالیتے ہیں ۔ موٹر سائیکلوں کی
پارکنگ سے آمدنی الگ حاصل ہوتی ہے اکثر اوقات ایک دو منٹ کا ہی کام ہوتا ہے
لیکن پارکنگ ٹیکس ضرور ادا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ تحقیقاتی رپورٹ کے
مطابق 25لاکھ آبادی پر مشتمل سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد جہاں آس پاس
کے مضافاتی علاقوں بدین، ماتلی، ٹھٹھہ ، سجاول، ٹنڈو محمد خان، ہالا،
مٹیاری، نواب شاہ، ڈگری، میرپورخاص ، ٹنڈو الہیار ، کوٹری، جامشورو، ٹنڈو
آدم سے یومیہ محتاط اندازے کے مطابق20000چھوٹی بڑی گاڑیاں شہر میں داخل
ہوتی ہیں شہر میں موجود گاڑیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ لوگ عیدین ،
چھوٹے بڑے تہوار، دکانوں پرخریداری ، دفاتر میں اپنا کام نمٹانے اور سرکاری
اور پرائیویٹ کمپنیز کے اہلکار اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے آتے ہیں جو
روز اس قسم کی منظم اور طاقتور مافیا کی ناجائز وصولی کا شکار ہوتے ہیں۔ جو
کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ سارا
غیر قانونی عمل پولیس، لوکل شہری انتظامیہ اور مقامی سیاسی بااثر لوگوں کی
سرپرستی کے بغیر ناممکن ہے ۔ پارکنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی قریبی پولیس
چوکی یا اسٹیشن ،لفٹر پولیس، ٹریفک پولیس سمیت بلدیہ حیدر آباد کی انتظامیہ
کو ہفتے وار یا ماہوار ذمہ داری سے پہنچائی جاتی ہے ۔ حکومت اور متعلقہ
اداروں کو چاہیے کہ اس سارے عمل میں ملوث بے ایمان سرکاری اہلکار اور مقامی
بااثر افراد کے خلاف ایکشن لے کر عوام کو ایذا پہنچانے والے عمل کو روکا
جائے۔ |