دولت کی اہمیّت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا کیو
نکہ انسان اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات بھی دولت کے بَل بوتے پر ہی پوری
کر سکتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ امیر ہے یا غریب ،وہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے
کے ساتھ ساتھ اپنی کمائی ہوئی رقم کو محفوظ بھی رکھنا چاہتا ہے۔بینک میں
چونکہ پیسہ محفوظ رہتا ہے جبکہ نقد رقم کی چوری ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے،
بناء بر ایں وطنِ عزیز میں ایک کثیر تعدد اد اپنی بچائی ہوئی رقم بینک ہی
میں رکھتے ہیں مگر کیا کیجئے، ان دولت کے پجاریوں کا ،جو راتوں رات آمیر
بننے کے شوق میں ایسے ایسے حربے
استعمال کرنے لگے ہیں ۔جسے دیکھ کر میرے جیسے عام ذہن کا آدمی دنگ رہ جاتا
ہے۔پچھلے دو ہفتوں سے بینک اکاونٹ سے رقم چوری ہو نے کے متعدد واقعات منظرِ
عام پر آ چکے ہیں۔ایسے لوگوں کی رقم بھی دھوکے کے ذریعے بینک سی چوری کی
گئی ہے جو ان کے خون پسینہ کی کمائی تھی۔پنشن کی رقم پر بھی سائبر کرائم کے
گروہ ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صرف پشاور میں سو
سے زائد لوگوں کے اکاوئنٹ سے رقم چوری کی جا چکی ہے، سوات دیر میں بھی ایک
سو بیس کے لگ بھگ لوگوں سے فراڈ کیا گیا ہے ۔کراچی ،فیصل آباد،لاہور،الغرض
ملک کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں بینک سے فراڈ کے ذریعے رقم نکالنے کی
واراداتیں ہوئی ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائمز کے ڈائرکٹر کیپٹن (ر)محمد
شعیب نے ایک نجی ٹیلیویژن کو انٹر ویو دیتے ہو ئے بتایا کہ ہمیں ملنے والی
حالیہ رپورٹس کے مطابق ملک میں موجود زیادہ تر بینک ہیکنک کی زد میں آئے
ہیں۔ان کے مطا بق 100 ایسے کیسوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں ۔جس میں سائبر
کرئم میں ملوث گروہ کسی نہ کسی طریقہ سے بینک کسٹمرز سے معلومات حاصل کر کے
ان کی رقم چوری کر لیتے ہیں ۔
اگر چہ سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ اے ٹی ایم کارڈز اور رقم کی
منتقلی سے متعلق نظام کو مزید بہتر بنایا جائے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
انسانی ذہن ابلیسیت پر آجائے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایسے طریقے بھی
موجود ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو ان کی رقم چوری ہونے یا ان سے کسی
قسم کا فراڈ ہونے کی نوبت نہیں آسکتی ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ سے کو ئی
بھی شخص اگر آپ کے بینک اکاؤنٹ سے متعلق کوئی بھی معلومات حاصل کرنا چاہتا
ہے تو کسی کو بھی اپنے بینک اکاوئنٹ سے متعلق معلومات ہر گز نہ دیں۔ عموما
فراڈ کرنے والے اپنے آپ کو بینک کا آفیسر یا فوجی اہلکار ظاہر کر کے آپ کا
اعتماد حاصل کرکے آپ کے اکاؤنٹ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کو شش کرتا
ہے۔لہذا ایسے لوگوں سے ہو شیار رہیئے۔آج کل سوشل میڈیا کا استعمال بہت عام
ہو چکا ہے،یاد رکھئے ! آپ کا موبائل ،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ آپ سے
متعلق معلومات کا خزانہ ہے۔آپ کہاں جاتے ہیں، آپ کا ذہن کس درجے کا ہے ۔آپ
کس قسم کے ویب سائٹس زیادہ دیکھتے ہیں‘‘آپ جوں ہی آن لائن ہو تے ہیں ، گویا
آپ کی سراغ رسانی شروع ہو جاتی ہے اور آن لائن چور آپ کے متعلق معلومات
اکھٹا کرتے ہیں۔اور اس کی بنیاد پر آپ کی پروفائل بنا کر اس کا تجزیہ کرتے
ہیں کہ آپ کی کس کمزوری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پروطنِ
عزیز میں بے شمار مرد ایسے ہیں جو خواتین سے چیٹنگ کرنے یا ان سے تعلق جو
ڑنے کی کو شش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عموما خوبصورت پروفائل پیکچر لگی کسی
خاتون کی فیس بک فرینڈ ریکویسٹ آجاتی ہے اور وہ اسے بِلا سوچے سمجھے اور
بِلا تحقیق قبول کر لیتے ہیں۔نئی فیس بک خاتون فرینڈ سے یہ ریکویسٹ بھی
آجاتی ہے کہ میں مصروف رہتی ہوں اور مجھے فیس بک دیکھنے کا مو قعہ بہت کم
ملتا ہے، لہذا مجھے اس ای میل ایڈریس پر ای میل کیجئے،میں نے آپ سے بہت
مفید باتیں کر نی ہیں۔ اس طرح اگر وہ آپ کا ای میل ایڈریس حاصل کر لے تو
یوں سمجھ لیجئے کہ اس نے آپ سے متعلق پچانوے فی صد معلومات حاصل کر لیں۔وہ
کس طرح آپ کی ای میل کے ذریعے آپ کا فون نمبر،اکاونٹ نمبر یا دیگر معلومات
حاصل کرتا ہے یہ طویل اور تکنیکی بحث ہے۔مگر یہ یا د رکھئیے کہ کسی ان جانے
شخص کو اپنا ای میل ایڈریس ہر گز نہ دیجئے۔ جس اے ٹی ایم مشین پر عموما
زیادہ رش ہوتا ہے وہاں اے ٹی ایم مشین پر فراڈ کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے،
کوشش کیجئے کہ وہاں اے ٹی ایم مشین کا استعمال نہ کریں۔جب بھی اے ٹی ایم
مشین سے رقم نکالیں تو مشین پر لگے کی بورڈ پرکینسل کا بٹن پہلے دو مرتبہ
دبا لیا کریں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو فون پر اپنے بینک اکا
وئنٹ سیے متعلق معلومات ہر گز نہ دیا کریں،اس طرح آپ کی رقم بینک میں محفوظ
رہی گی اور آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ |