چین میں قید ہماری بیویوں کو رہا کروایا جائے

چین میں کاروبار کرنے والے متعدد پاکستانیوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں ’اصلاحی مراکز‘ (ری ایجوکیشن سنٹرز) میں 'قید' ان کی بیویوں کی رہائی کے لیے چینی حکومت سے سفارتی سطح پر رابطہ کیا جائے۔
 

image


اسلام آباد میں دفتر خارجہ اور بیجنگ میں پاکستانی سفیر کے نام اپنی درخواستوں میں ان پاکستانی شہریوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی چینی شہری بیویوں کو وجہ بتائے بغیر سنکیانگ کے مختلف علاقوں میں قائم ری ایجوکیشن سنٹرز میں رکھا گیا ہے۔

ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ چینی مسلمان خواتین پچھلے دو برسوں کے دوران زبردستی ان مراکز میں بند ہیں اور ان کی سفری دستاویزات بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔

درخواست میں درج ہے کہ 'دو سال قبل چائنیز حکومت نے بغیر کوئی وجہ بتائے ہماری قانونی بیویوں کو صرف اور صرف پاکستان آنے کے جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے اور ہمیں بھی اپنی ذاتی رہائش گاہوں سے بےدخل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم بھی چین جانے سے قاصر ہیں اور تاحال نہ تو جرم بتایا جاتا ہے نہ ہی ان سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔'
 

image


درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 'پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ہم سائلان کی جملہ مشکلات کے حل کے لیے چائنا حکومت سے بازپرس کی جائے اور ان بےگناہ خواتین کو قید و بند کی سختیوں سے رہائی دلوائی جائے۔'

چین میں کتنے پاکستانیوں کی مسلمان بیویوں کو ان مراکز میں رکھا گیا ہے، ان کی درست تعداد تو معلوم نہیں تاہم ان میں سے متعدد افراد نے بی بی سی سے رابطہ کر کے ان حالات کے بارے میں بتایا ہے جن میں ان کی شریک حیات کو ان مراکز میں رکھا گیا ہے جنھیں چینی حکومت 'سوچ کی تبدیلی کے مراکز' قرار دیتی ہے۔

ان افراد کا کہنا ہے کہ ان خواتین میں سے بعض کو ان مراکز میں دو برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جہاں انھیں مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان خواتین کو اپنے شوہروں سے بعض اوقات ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اسی بات چیت کے دوران ان کے شوہروں کے مطابق انھیں معلوم ہوا ہے کہ ان مراکز میں ان کی بیویوں کو ایسی تعلیم اور تربیت دی جا رہی ہے جس کا مقصد انھیں مذہب سے دور کرنا ہے۔

ایسے ہی ایک شوہر نے بی بی سی کو بتایا: 'ان خواتین کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے اور اسلام کے مطابق لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے برعکس انھیں رقص کی تربیت دی جاتی ہے، اسلام میں ممنوع اشیا کھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترانے سکھائے جا رہے ہیں۔'

چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں حکام نے بڑے پیمانے پر مسلم اویغور افراد کے لاپتہ ہونے کی خبروں پر بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کے بعد ان افراد کے لیے بنائے جانے والے مراکز کو قانونی شکل دینے کا اعلان کیا ہے۔
 

image


چینی حکام کے مطابق یہ ہنر سکھانے کے مراکز یا 'ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز' ہیں جہاں 'سوچ میں تبدیلی' کے ذریعے شدت پسندی سے نمٹا جاتا ہے۔

اس کے مطابق جو رویے جو حراست میں لیے جانے کی وجہ بن سکتے ہیں ان میں حلال چیزوں کے تصور کو توسیع دینا اور سرکاری ٹی وی دیکھنے، سرکاری ریڈیو سننے سے انکار اور بچوں کو سرکاری تعلیم دلوانے سے انکار شامل ہیں۔

چین کا کہنا ہے کہ ان حراستی مراکز میں چینی زبان کے علاوہ قانونی نکات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جبکہ وہاں رکھے جانے والے افراد کو ووکیشنل تربیت بھی ملتی ہے۔

حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔

(بی بی سی نے ان مراکز میں مقیم متعدد چینی خواتین کے پاکستانی شوہروں کی کہانیاں اکٹھی کی ہیں جو آئندہ چند روز تک ان صفحات پر شائع کی جائیں گی)

YOU MAY ALSO LIKE:

A group of Pakistani businessmen have travelled to Beijing to petition for the release of their Chinese wives and children who were caught up in a sweeping detention campaign in Xinjiang. The rare act of protest demonstrates how China’s security crackdown on the Uighur people, an ethnic group that traditionally practises Sufi Islam, could strain its relationship with an important ally in the Muslim world.