پانی کا فطری تقاضا ہے کہ وہ آگ بجھاتا ہے لیکن اسی
پانی کے اجزائے ترکیبی کو الگ الگ کر دیا جائے اور اس طرح پانی کا ہر قطرہ
ہائڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو جائے تو ان اجزائے ترکیبی کی کیفیت
یہہوتی ہے کہ آگ بجھانا تو دور کی بات، ہائڈروجن خود جلتی ہے اور آکسیجن
دوسری اشیاء کو جلنے میں مدد دیتی ہے۔ کوئی شے آکسیجن کی غیر موجودگی میں
جل نہیں سکتی۔اسی طرح جب دین اسلام الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تو
اس کے دونوں ٹکڑوں یعنی حکومت اور مذہب میں سے کسی میں دین اسلام کی
خصوصیات باقی نہ رہیں بلکہ ان ٹکڑوں کی خصوصیات دین اسلام کی ضد بن
گئیں۔دین اسلام وحدت پیدا کرنے والا تھا، ملوکیت، بادشاہت جمہوریت اور مذہب
نے ملت کو فرقوں گروہوں یا مختلف سیاسی پارٹیوں کے حمایتیوں میں بدل دیا
اور یہ قانون خداوندی سے اعتراض برتنے کا فطری نتیجہ ہے جسے عذاب الہٰی کہا
جاتاہے۔سورۃ 6 آیت 65 میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان سے کہہ دیجئے خدا کا
قانون اس بات پر قادر ہے کہ (اس کی خلاف ورزی کرنے سے) تم پر خارجی دنیا سے
عذاب لے آئے یا داخلی دنیا(تمہارے پاؤں کے نیچے) سے یا تم گروہوں میں بٹ کر
غلط ملط ہو جاؤ (اور اس طرح تمہاری وحدت ختم ہو جائے) اور تم ایک دوسرے کی
شدت قوت کا شکار ہو جاؤ۔دیکھو، ہم کس طرح ان حقائق کو پھیر پھیر کر تمہارے
سامنے لاتے ہیں تاکہ تم ان پر غور و فکر کرو۔ارباب مذہب، مذہبی پیشوا یا
مولوی نتائج کو اعمال سے اتنا دور لے گئے کہ سب کچھ مستقبل یعنی''آخرت'' پہ
اٹھا رکھا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وقتی طور پر تو انکا حال(دنیا) روشن ہوا
مگر پھر قانون فطرت نے انہیں ذلت کے گڑھوں میں پھینک دیا فضل الرحمان اس کی
زندہ مثال ہے جبکہ اہل حکومت نے اپنی تمام تر توجہ حال یعنی ''دنیا'' پرہی
مرتکز رکھی اس لیے اہل حکومت کا حال تو وقتی طور پر خوشگوار ہوگیا لیکن آخر
کار اﷲ کے قانون نے نہ صرف ان کو بھی زلیل وخوار کیا بلکہ آخرت کے ثمرات سے
بھی محروم رہ گئے نواز شریف اسکی بڑی مثال ہے۔بے شک اﷲ تعالیٰ نشانیوں سے
بات سمجھاتا ہے جس میں حکمت بھی ہے اور عبرت بھی۔
غور کیجئے حال(دنیا) اور مستقبل (آخرت)کے فرق اور وقتی مفاد کو پیش نظر
رکھنے والوں کے متعلق قرآن سورۃ توبہ آیت 38 تا 39 میں واضح کر دیتا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے کہ : اے وہ لوگوں جو ایمان کے دعویدار ہو تمہیں کیا ہوگیا ہے
کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھل
ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں۔ کیا تم مستقبل سے بے فکر ہو کر قریبی مفاد کے
پیچھے پڑ گئے ہو؟ اگر ایسا ہی ہے تو (تم نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا
کہ )قریبی مفاد تو مستقبل کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر تم اس
روش پر قائم رہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ۔اگر تم نے (مستقبل کی تابناکی
کیلئے )قدم نہ اٹھایا تو یاد رکھو خدا کا قانون تمہیں اس کی بڑی دردناک سزا
دے گا، یعنی تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے ۔چنانچہ اس طرح ان کی وسیع
وعریض حکومتیں ختم ہو گئیں یا سمٹ کر چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں تقسیم ہوگئیں
۔عرب اس کی بہترین مثال ہے یہ سب حکومتیں مغرب کے رحم و کرم پر زندہ ہیں جب
تک اقوام مغرب کی سیاسی مصلحت کا تقاضا ہوگا یہ سلطنتیں قائم رہیں گی جب
نہیں ہوگا تو شام عراق لیبیا کی طرح ختم کر دیا جائے گا۔علامہ محمد اقبال ؒ
نے کیا خوب فرمایا :
اپنی ملت کا قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِﷺ ہاشمی
علامہ اقبال ؒ کے اس شعر سے دنیائے اسلام کو ایک نئی جہت ملتی ہے کہ ہمیں
اپنی اصل کو لوٹنا چاہئے ۔ذرا میں ان دانشوروں اور نوجوان طبقے کے گوش گزار
یہ بھی کرتا چلوں کہ وہ سوچتے ہیں مغرب ہم سے کہیں بڑھ کر مہذب ہے اور
مسلمانوں کی تاریخ خون آشام شمشیروں سے لتھڑی پڑی ہے ۔ انہوں نے سائنس و
ٹیکنالوجی میں فلاں فلاں ترقی کر لی لیکن ہم نے آج تک دنیا کو اور اپنی قوم
کو کیا دیا ہے جو ہم کہیں کہ ہمارا معاشرہ مہذب ہے اور ہم بہترین قوم ہیں ؟
ان کے نام میرا پیغام ہے کہ مغرب میں مسلمانوں نے پہلے حکومت کی ،
یونیورسٹیز بنائیں ، سائنسدان پیدا کئے ، سب مسلمان تھے ، کتنے ہی مغرب کے
سائنسدان جب قدرت کی کھوج میں نکلے تو مشرف بہ اسلام ہوئے ۔اگر آج ہم ذلالت
کا شکار ہیں اور قرآن المجید کی مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہم اﷲ کے ان
عذابوں میں پس رہے ہیں تو اس کے پیچھے ہمارا اپنا انحراف ہے اس خاص ترکیب
سے جو قومِ رسولﷺ ہاشمی کی ہے۔ مغرب نے اگر کچھ ایجادات کیں ہیں تو وہ
انسانیت کے ،ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے انہیں ۔نہ تو وہ ہم سے مہذب ٹھہرے
ہیں جو ہمیشہ نعشوں پر اپنی تہذیب کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کے
گندے بدبودار فلسفوں میں کوئی سچائی ہے جو کسی بھی انسان کی زندگی کیلئے
مشعل راہ بن سکے ۔ان سلطنتوں میں اس شکل کا بھی اتحاد نہیں جیسا مغربی
ممالک میں ہے۔ یہاں کیفیت یہ ہے کہ ایک سلطنت دوسری سے برسرِ پیکار ہے، ایک
فرقہ دوسرے سے نبردآزما ہے نتیجہ یہ ہے کہ ان کا معاشرہ اور علمی سرمایہ
انکے تصورات حیات انکے نظریات زندگی سب کے سب افسردگی کے پیغام بردار اور
موت کے نقیب ہیں۔
تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
اور یہ اس لیے کہ۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
امت روایات میں کھو گئی
تازہ ترین مثال عطا الحق قاسمی ہے کہ وقتی مفاد کو پیش نظر رکھنے اور اﷲ کے
قانون سے اعتراض برتنے والے کا کیا انجام ہوتاہیکوئی ہے! جو غور و فکر کرے
اور عبرت پکڑے!۔ |