اور تحمل مزاجی کیا ہوتی ہے ؟

میرا ایک دوست(رانا فہد) دوبئی کی جس کمپنی میں ملازم ہے وہاں انڈین اور انگریز بھی کام کرتے ہیں ۔ آسیہ کیس کا سپریم کورٹ کی جانب سے بری کرنے کا فیصلہ آیا تو اس کا ردعمل پورے پاکستان میں محسوس کیا گیا ۔اس دوران جو کچھ ہوا۔ اس کی تشہیر بین الاقوامی میڈیا نے کرکے پاکستان کو خوب بدنام کیا ۔ ایک انگریز خاتون میرے دوست سے سوال کرتی ہے کیامسلمان اپنے ملک میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے ۔ میرا دوست اس سوال پر بہت پریشان ہوگیا اور مجھ سے کہہ رہا تھا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں پاکستان واپس نہیں جاؤں گا ۔ جبکہ اس کے والدین اور رشتہ دار پاکستان میں موجود ہیں ۔ میں نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا دل برداشتہ ہونے والی کوئی بات نہیں۔آپ اس انگریز خاتون سے کہیں ہمارے پاکستان میں عیسائی ‘ ہندو ‘ پارسی ‘ سکھ بھی نہایت پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں ۔ پاکستان میں تعلیم اور تجربے کو دیکھاجاتا ہے ‘ مذہب کو فوقیت نہیں دی جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی افراد بے شمار اداروں میں کلیدی عہدوں پر بھی فائز ہیں جہاں مسلمانوں کا ان کے ساتھ تعلق نہایت دوستانہ ہے ۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سکھوں اور ہندووں نے ہجرت کرنے والے مسلمان عورتوں ‘ بچوں اور مردوں کو تلواروں اور نیزوں سے بیدردی سے شہید کیا ۔کٹے پٹے انسانی اعضا سے بھری ٹرین بھارت سے لاہور پہنچتی رہیں ۔لیکن پاکستانی قوم اس قدر فراخ دل اور انسانی محبت سے لبریز ہے کہ اس نے اپنے جسم پر لگنے والے ہر زخم کو فراموش کرکے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس میں تمام اقلتیں پرامن طریقے سے رہ رہی ہیں بلکہ بھارت سے آنے والے سکھوں اور انکی عبادت گاہوں کابطور خاص خیال رکھاجاتاہے۔سکھ تو اب فوج اور پولیس کا حصہ بھی بن چکے ہیں ۔ یہ ہم سب پاکستانیوں کی تحمل مزاجی اور انسانیت کے احترام کا بین ثبوت ہے ۔اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں ‘ سکھوں اور نچلی ذات کے ہندووں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے ۔سینکڑوں مسلمان صرف اس شک کی بنا پر شہید کردیئے گئے کہ ان کے گھر میں گائے موجود تھی ۔ بابر ی مسجد کو مسمار کرکے وہاں مندر بنانے کا واقعہ تو سب سے تکلیف دہ ہے ۔ سکھوں کی عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کی گئی ۔ آئے روز نچلی ذات کے ہندووں اور ان کے گھروں کو آگ لگا کر زندہ بھسم کردیاجاتا ہے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلنے والے مسلمانوں کی روحیں آج بھی بھارتی حکومت اور معاشرے سے انصاف مانگ رہی ہیں ۔ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اس حد تک بڑھتے جارہے ہیں کہ انسانی روح کانپ اٹھتی ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار یورپی ممالک اور بین الاقوامی میڈیا کشمیر کی صورت حال سے آنکھیں بند کرکے بیٹھاہے۔ میں نے کہا دوست سے کہا دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس انگریز خاتون سے کہو کہ ماتحت عدالتوں میں الزام ثابت ہونے کے باوجود کسی پاکستانی نے آسیہ اور اس کے گھروالوں کو جانی و مالی نقصان نہیں پہنچایا ۔ یہ اعزاز پاکستانی سپریم کورٹ کو ہی جاتا ہے جس نے ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو یکسر تبدیل کرکے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا ۔ کیا ان سب باتوں کے باوجود بھی ہم پاکستانیوں کے سر پر عدم برداشت کا الزام لگتاہے ۔ آسیہ بی بی نے جان سے بھی پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شان میں مبینہ گستاخی کی ۔عدالتوں میں زیر سماعت اپیل کے باوجود کینیڈا ‘ ہالینڈ سمیت تمام یورپی ممالک کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ آسیہ کو پاکستانی حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنے ملک لے جائیں اور وہاں اس لیے اسے ہیرو کادرجہ دیا جارہا ہے کہ اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے نبی ﷺ کی شان میں مبینہ گستاخی کاکارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس انگریز خاتون کو بتادو ۔ حضرت محمد ﷺ سے محبت ہی ہم مسلمانوں کے ایمان کالازمی جزو ہے ۔ ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے ۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہالینڈ ‘ جرمنی ‘ ڈنمارک جیسے ممالک میں گستاخانہ خاکے بنانے کی جرات کیوں کی جارہی ہے ۔ ہمیں عدم برداشت کا طعنہ دینے والے نبی کریمﷺ کی شان میں اگر گستاخی کاتصور بھی کریں گے تو جہاں جہاں بھی مسلمان موجود ہوگا وہ اس گستاخ کو جہنم واصل کرکے ہی اپنے ایمان کی سلامتی کا ثبوت ضرور دے گا ۔مسلمانوں کی تاریخ علیم دین شہید اور عامر چیمہ شہید جیسے سرفروشوں سے بھری ہوئی ہے۔ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گرد امریکہ اور یورپی ممالک ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم کی بیمار بیٹی عافیہ صدیقی کو 17 سال سے اپنی قید میں ڈال رکھا ہے ۔آسیہ بی بی کے لیے آنسوبہانے والوں کو کیاعافیہ صدیقی دکھائی نہیں دیتی ۔ یہی عیسائی اور یہودی طاقتیں ‘ عراق ‘ شام ‘ لیبیا اور افغانستان میں پچاس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار چکی ہیں کہ انہوں نے بڑی طاقتوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا تھا ۔ ہولو کاسٹ کانام زبان پر آتے ہی تمہیں آگ لگ جاتی ہے۔ کسی مسلمان ملک نے یورپی ملک پر حملہ کرکے وہاں کھوپڑیوں کے مینار نہیں بنائے یہ اذیت نام فریضہ امریکہ اور یورپی ممالک نے ہی انجام دیاجو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار اور مہذب کہلاتے ہیں ۔ یہ بات بھی کان کھول کر سن لو گستاخی عیسائی کرے یا مسلمان ۔سب کے لیے ایک ہی سزا ہے کہ سر ‘تن سے جدا کردیاجائے ۔ پاکستان کی حکومت اور عدالتیں اقلیتوں کے حقوق کی محافظ ہیں۔ مسلمانوں پر انتہاء پسندی کا الزام لگانے والوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیئے ۔ ہر پاکستانی اور ہر مسلمان اپنے پیارے نبی اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے ہر لمحے تیار ہے ۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے ۔ ہم مسلمان تمام انبیاء کرام کی دل سے عزت کرتے ہیں لیکن کسی کی زبان ‘ہاتھ اور قلم سے اپنے نبی ﷺ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے ۔حضرت محمد ﷺ کی حدیث ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں بن سکتا جب تک آپ ﷺ کو اپنے والدین سے بھی زیادہ عزیز نہ سمجھے ۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.