تحریر: انصر محمود بابر
عبد کو اپنے معبود کی عبادت کرنا ہی ہوتی ہے ، برضا و رغبت یا بادل نخواستہ
کیونکہ یہی اس کی زندگی کامقصد اور یہی اس کی زندگی کی ضمانت ہے۔ انسانی
فریضوں میں سے کچھ توایسے ہیں کہ ان کی جزاواجرت یا معاوضہ ومحنتانہ یہیں
اسی دنیامیں مل جاتا ہے جلدیابدیر۔ کچھ فرائض ایسے ہیں کہ جن کابدلہ اس
زندگی میں نہیں بلکہ آنے والی زندگی میں دیا جا ئے گا۔کچھ فریضے ایسے ہیں
کہ جن کاتعلق براہ راست اﷲ تعالیٰ کی ذات سے ہے۔ ان فریضوں میں سے
اگرخدانخواستہ کوئی فرض چھوٹ بھی جائے گا تو مجھے اﷲ رب العالمین کی رحمت
سے پوری امیدہے کہ ہمیں معاف کردیاجائے گا ۔
کچھ فریضے ایسے بھی ہیں کہ جن کاتعلق اﷲ کے کنبے سے ہے، اس کی مخلوق سے ہے۔
اس مخلوق میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ دیگرتمام پیداواربھی شامل ہیں وہ
جانورہوں،حشرات الارض ہوں،پرندے ہوں یاجمادات ونباتات۔سب اسی کی مخلوق ہیں،
اسی کی پیداوارہیں اوریہ سب مخلوقات اسے بہت عزیزہیں۔اس ساری پیداوارکااسے
بہت زیادہ احساس اوردھیان ہے۔تمام کائناتیں اس کی توجہ اورتصرف میں ہیں۔سب
چیزیں اس کے احاطہ رحمت میں ہیں۔ تمام کائناتیں اس کے فضل کے حصار میں ہیں۔
ہر مخلوق اس کے کرم کی مرہون منت ہے۔ عبادت کامقصدیہ ہے کہ حق ِ بندگی
اداہو، مالک راضی ہوجائے،زندگی گزارنے کاطریقہ،سلیقہ اور ڈھنگ آجائے،آقاؐ
خوش ہوجائیں۔
عبادت کاثواب یہ ہے کہ اس دنیامیں اطمینان ِ قلب نصیب ہو، آخرت میں انعام
کے طورپرجنت میں ساقی کوثرؐ کی قربت نصیب ہوجائے۔عبادت کاسوادیہ ہے کہ جس
طرح نمازمیں صفیں برابراور سیدھی ہوتی ہیں اسی طرح عام زندگی میں بھی وہی
اتفاق واتحاد، اخوت ومحبت،خلوص ویگانگی،مساوات وبھائی چارے کی فضاقائم
ہوجائے،احساس ِتعلق پیداہو،خلوص ِ نیت کاشکار ہوں،عاجزی ووقارنصیب ہو،
سپاہیانہ جلال اورخاکسارانہ تمکنت حاصل ہو،ہمہ وقت خودکو حالت ِ نماز میں
محسوس کریں ایک نماز سے دوسری نمازتک کاساراوقفہ نمازکو قائم کرنے میں
کوشاں ومصروف ہوں۔ عبادت کامقصد کہاں تک پوراہوتاہے اورعبادت کاثواب
کتناملے گا؟یہ کوئی کیسے جان سکتاہے؟۔ البتہ تیسری بات جونمازکے سوادکی ہے
۔یہ مقصدکہاں تک پوراہوتاہے ،اس بات کااندازہ ہم اپنی روزمرہ زندگی سے
لگاسکتے ہیں۔اگرآپ کے من میں دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیدانہیں
ہوتا،اگرکسی کے دکھ دردمیں شریک ہونے کااحساس نہیں جاگتا، اگرکسی کی
خاطرکچھ کرگزر نے کی تڑپ نہیں ابھرتی، اگر کچھ اچھاکردکھانے کی امنگ
انگڑائیاں نہیں لیتی اوراگرزندگی کوجینے کا ڈھنگ نہیں آتاتویہ بات ہمیں
سمجھ لینی چاہئے کہ ہماری نمازوں میں کوئی خشوع اورخضوع نہیں ہے۔
ہماری عبادت میں کہیں کوئی کجی ہے۔ جب ہم خداکے ہاں ہوتے ہیں توگویا پھربھی
وہاں نہیں ہوتے۔ ہم بظاہرتواپنے خداکے سامنے ہوتے ہیں مگراپنے قلب وذہن میں
ہزاروں بت لئے ہوتے ہیں۔۔۔ کہیں خواہشات کابت توکوئی نیک نامی کابت، کبھی
لذت وراحت کابت توکہیں عزت ومرتبت کابت، کیایہ شرک نہیں ہے۔۔؟ کیایہ بت
پرستی نہیں ہے۔۔؟ آئیے یہ بت پرستی چھوڑنے کاعہدکرلیں اور آج سے اپنے خدائے
وحدہ لا شریک، بے مثل ولاثانی اورحقیقی پروردگارکی عبادت کریں صرف اسی کی
پوجا کریں۔ خالصتا خلوص نیت سے اس کی بندگی کریں تاکہ بندہ ہونے اور بندہ
کہلانے کاحق ادا ہو اور ساتھ ساتھ ان فرائض کی ادئیگی کا بھی عزم ِ صمیم
کریں کہ جواس کی مخلوق کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ نیزیہ بات بھی ذہن
میں ہونی چاہئے کہ ہمیں اپنے حقوق اس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک ہم اپنے فر
ائض ادانہیں کرلیتے، اپنے حقوق چھین کر حاصل کرنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھ
لینا چاہئے کہ کیاہم نے اپنے فرائض اداکرلئے ہیں؟ کیا ہم خداکے اوراس کی
مخلوق کے مجرم تو نہیں۔
|