جنسی زیادتی کا نشانہ لڑکا بنے یا لڑکی، دونوں کی شخصیت
ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے، لیکن حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ لڑکوں پر ہونے والے
اس ظلم کو قانوناً ریپ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ تفصیل میں جانے سے پہلے میں اس
معاملے کے کچھ پہلوؤں پر بات کرنا چاہوں گی۔ لڑکوں کا ریپ کرنے والے یا تو
’’گے‘‘ ہوتے ہیں جنھیں صرف مردوں میں دل چسپی ہوتی ہے یا پھر ہو وہ مرد
ہوتے ہیں جو کہ مرد اور عورت دونوں سے ہی اپنی جنسی خواہش کی تکمیل میں
تسکین محسوس کرتے ہیں۔
یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ ہم اب بھی مردوں کے سیکچول ابیوز پر بات نہیں
کرتے اور نہ ہی اس حوالے سے ہمارے ملک میں خاطر خواہ قوانین موجود ہیں جن
کی بنیاد پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا جاسکے۔
ہمارے آس پاس کتنے ہی ایسے معزز افراد شرافت کا چولا پہنے موجود ہیں جو اس
قبیح فعل میں ملوث ہیں لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ لڑکوں کے معاملے میں غیرت
کا پہلو اتنا اہم نہیں لہٰذا ایسا کرنے میں انھیں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی
اور نہ ہی وہ ایسے گھناؤنے فعل کو گناہ گردانتے اور شرمندہ ہوتے ہیں۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو مرد ریپ کا شکار ہوتے ہیں وہ اس بات سے انکار
کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دیتے ۔ ہاں اگر ایسی صورت
حال میں جب کوئی بری طرح زخمی ہوجائے تب ہی طبی مدد لی جاتی ہے۔ گھر والوں
کے علم میں اگر یہ بات آبھی جائے تو اسے چھپایا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ
کوئی اقدام کرنا مقصود ہی ہوتو متاثرہ لڑکے کو اس شخص سے دور کردیا جاتا ہے
جس کی وجہ سے یہ لڑکا اس حالت میں پہنچا ہے۔
بھارت میں ایک لڑکے نے جس کے ساتھ گیارہ سال کی عمر سے لے کر سترہ سال کی
عمر تک اس کے انکل نے زیادتی کی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف اس وقت
آواز اٹھائی جب وہ پچیس سال کا ہوچکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے جس طرح
احساسِ کمتری میں زندگی گزاری ہے اس تکلیف کو صرف میں محسوس کرسکتا ہوں اور
چاہتا ہوں اور لڑکوں کے ساتھ ایسا نہ ہو جو مجھ پر گزری۔ میں قانونی طور پر
اس مسئلے کو سامنے لانا چاہتا ہوں اور قانون میں اصلاح کا خواہش مند ہوں۔
اس کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد میں اپنے آپ کو ’’گے‘‘
سمجھنے لگا تھا جب کہ ایسا نہیں ہے اور خاموش صرف اس لئے تھا کہ مجھے لگتا
تھا لڑکوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ اِسی سلسلے میں نئی دہلی سپریم کورٹ میں
مردوں سے عصمت دری کے متعلق ایک عرضی داخل کی گئی جسے 2 فروری 2018 کو خارج
کردیا گیا۔ اس عرضی میں عصمت دری جیسے جرائم کو جینڈر فری کرنے کی سفارش کی
گئی تھی۔ فی الحال اگر مرد اپنی عصمت دری سے متعلق شکایت کرتا ہے بھی ہے تو
ملزم کو دفعہ377کے تحت سزا دی جاتی ہے۔ مَردوں سے جُڑے ایسے جرائم کو ریپ
نہیں غیرفطری سیکس کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اب ایک اور عرضی زیرِالتواء
ہے، جس کے مطابق جنسی جرائم میں صنف کو غیرجانبداری کی بنیاد پر دیکھنے کی
درخواست کی گئی ہے۔
وکی پیڈیا میں ریپ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے: عصمت دری، جنسی زیادتی یا
آبروریزی ایک طرح کا جنسی حملہ ہے، جسم میں جنسی مباشرت یا کسی اور قسم کا
جنسی دخول کسی شخص کی مرضی کے بغیر کیا جاتا ہے۔ یہ کام جسمانی زورآوری،
زبردستی، عہدے کا غلط استعمال یا کسی ایسے شخص کے خلاف کیاجاتا ہے جو اپنی
قانوناً درست مرضی کا اظہار نہیں کرسکتا جیسا کہ وہ شخص بے ہوش ہو، معذور
ہو، ذہنی نااہلیت کا شکار ہو یا فیصلہ لینے کی عمر تک نہ پہنچا ہو ۔
زیادہ تر کیسز میں لڑکوں کے ساتھ زیادتی میں ان کے قریبی رشتے دار ہی ملوث
ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جس مخصوص طرز پر قائم ہے اس میں لڑکیوں کے اٹھنے
بیٹھنے، بول چال کسی سے ملنا چاہیے کس سے نہیں، جیسے ہر معاملے پر پچپن سے
ہی نظر رکھی جاتی ہے لیکن لڑکوں کے معاملے میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
انھیں باہر نکلنے کسی کے ساتھ بھی آنے جانے یا زیادہ وقت گزارنے پر کم
پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ریپ کرنے والا اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے
لہٰذا چھوٹے لڑکے ان کا آسان نشانہ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ یہ فعل انجام دینے
کے بعد ان میں بار بار ایسا کرنے کی ہمت آجاتی ہے، اور متاثرہ لڑکا ان سے
بلیک میل ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ تر نو سال سے سولہ سال کے لڑکوں کو زیادتی کا
نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اتنی عمر کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کی صورت میں فوری
طور پر کسی جسمانی عارضہ سامنا آسکتا ہے یا پھر بچیاں حاملہ ہوسکتی ہیں،
لیکن لڑکوں کے معاملے میں ایسے خطرات کم ہوتے ہیں، چنانچہ لڑکے اس درندگی
کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ میرے ایک اسٹوڈنٹ کے ساتھ پیش آیا جس نے اپنی شناخت
چھپانے کا وعدہ لے کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی تفصیل کچھ یوں بیان کی۔
’’اس وقت میری عمر سولہ سال تھی۔ میرا دوست اور اس کے تمام گھر والے کسی
شادی کے تقریب میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے لیکن اس کے والد صاحب گھر پر ہی
تھے۔ میرا اپنے دوست کے گھر تین سال سے آنا جانا تھا۔ اس کے والد صاحب
نہایت خوش مزاج آدمی تھے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ میری اپنے ہم عمر دوست سے
زیادہ انکل سے بنتی تھی۔ انکل کی عمر چالیس سال کے قریب ہوگی۔ ایک شام اس
کے والد مجھے عصر کی نماز میں مسجد میں ملے بہت گرم جوشی سے دوستوں کے
انداز میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے مجھ سے کہا کہ گھر میں کوئی
نہیں ہے اور میں اپنے دو دوستوں کو باربی کیو پارٹی میں بلانا چاہتا ہوں
میں اکیلا ہوں گا لہٰذا تم آج رات ہمارے گھر آجاؤ۔ میرے لئے یہ سب کچھ کسی
ایڈونچر سے کم نہیں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ گھر والوں کو کیا اعتراض ہونا
ہے، کیوں کہ میں ویسے بھی ان کے گھر راتیں گزارتا تھا۔ اس رات میں ان کے
گھر پہنچا اور انکل کے ساتھ کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔ اتنے میں انکل
کے دو دوست بھی آگئے۔ مجھے ان کے ساتھ اپنے بڑے ہونے کا احساس ہورہا تھا،
کیوں کہ ان کی گفتگو، آوازیں، ذہنی معیار سب کچھ مجھے متاثر کر رہی تھیں۔
کھانا ختم ہوا تو رات کے دو بج چکے تھے، لیکن محفل جمی ہوئی تھی۔ اچانک
انکل کے ایک دوست نے کاغذ کے بھورے رنگ کے تھیلے میں سے ایک لال رنگ کی
بوتل نکالی۔ میں اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا کہ یہ نہ سمجھ سکوں کہ یہ کیا ہے۔
بہرحال شراب کی بوتل دیکھ کر میں ایک طرف دبک کر بیٹھ گیا اور وہ شراب پینے
لگے۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ آپس میں دھیمے لہجے میں بات کرکے مسکرانے لگے۔
میں ان کی بات سن سکتا تھا لیکن اس وقت ان کی عجیب حالت کو دیکھ کر میرا
کچھ بھی کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اتنے میں میرے انکل اپنی جگہ سے اُٹھ
کر آئے اور مجھے شراب پینے کا کہا۔ میں نے انکار کردیا۔ میرا انکار اور ان
کا اصرار شدت اختیار کرگیا۔ اچانک انکل کے دونوں دوستوں نے مجھے پکڑ لیا
اور انکل نے زبردستی مجھے شراب پلانی شروع کردی۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا
کہ آخر مجھے شراب پلا کر انھیں کیا فائدہ ہوگا۔ لیکن آدھے گھنٹے بعد میں
مکمل مدہوشی کی کیفیت میں جاچکا تھا۔ وہ لوگ مجھے اٹھا کر کمرے میں لے گئے۔
مجھے مار مار کر پہلے غلیظ حرکتیں کرواتے رہے، پھر مجھے زیادتی کا نشانہ
بنایا۔ میں انتہائی تکلیف کی حالت میں تھا کچھ دیر بعد میں بے ہوش گیا۔
آنکھ کھلی تو میں ایک ڈسپنسری میں تھا۔ میرے انکل اور میرے والد صاحب دونوں
موجود تھے، جو کہ نہایت پرسکون انداز میں گفتگو میں مشغول تھے۔ مجھے ہوش
میں آتے دیکھ کر دونوں میری طرف متوجہ ہوئے اور انکل نے مسکراتے ہوئے کہا
کیو ں بھئی بچے رات کو سوئے تو اُٹھے ہی نہیں۔ ایسا کیا ہوگیا اور یہ کہہ
کر مسکرانے لگے۔ والد نے مجھے پیار کیا اور انکل سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ
اس کی ماں نے اسے بہت نازک بنادیا ہے۔ مجھے اپنے پیچھے درد محسوس ہورہا
تھا۔ میں نے آہ بھر ی تو انکل کہنے لگے ارے بھئی تمھیں کل چھت پر جو کیل لگ
گئی تھی اس میں سے ہلکا سا خون رس رہا تھا، فکر مت کرو وارڈ بوائے نے مرہم
لگادیا ہے۔ ڈسپنسری بہت چھوٹی تھی اور اس وقت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں تھا، جسے
یہ شک ہوتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ابو کا بظاہر نارمل رویہ دیکھ کر میں
خاموش ہوگیا۔ ابو مجھے گھر لے گئے۔ میں کسی سے کچھ نہ کہہ سکا اور نہ ہی
اپنے انکل سے کچھ کہہ پایا۔ انکل اس کے بعد بھی مجھے ہر روز نظر آتے میں ان
سے نظریں چرا کر یہاں وہاں ہوجاتا۔ وہ دور سے مجھے دیکھ کر شرمندہ ہونے کے
بجائے ہمیشہ مسکرا کر دیکھتے۔ اس واقعے کو اب دس سال گزر چکے ہیں لیکن میں
آج بھی اس واقعے سے باہر نہیں آسکا۔ میں اب بھی ایک عام زندگی گزارنے کے
قابل نہیں ہوں۔ خواتین سے میں بات نہیں کرنا چاہتا اور مردوں سے مجھے ڈر
محسوس ہوتا ہے۔ میں اب میچور ہوں گھر والے میری شادی کررہے ہیں لیکن مجھے
سمجھ نہیں آتا کہ میری آگے کی زندگی کیسی ہوگی۔ اس ایک واقعے نے میری زندگی
میرا اعتماد مجھ سے چھین لیا اور میں کچھ نہ کرسکا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں
اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیس کروں، لیکن اب بہت عرصہ گزر چکا ہے اور
ہمارے یہاں لڑکوں کے ساتھ ریپ کا کوئی قانون علیحدہ سے موجود نہیں نہ ہی
اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔‘‘
عالمی قوانین کے مطابق عصمت دری کی قانونی حیثیت اس وقت مکمل طور پر لاگو
ہوتی ہے جب کسی خاتون کے ساتھ اس کے اندام نہانی کے ذریعے اس کی مرضی کے
بغیر تعلقات قائم کرنے کے لئے زبردستی کی جائے جسے، sexual intercourseکہا
جاتا ہے۔ اس لحاظ سے قانونی طور پر یہاں مردوں کو مسترد کردیا جاتا ہے۔ حال
ہی میں سوئس حکومت نے اس حوالے سے اپنے ملک میں قانونی اصلاحات کو بدلنے کے
لئے تجاویز پیش کی ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں اب بھی اس حوالے سے کھل کر
بات نہیں کی جارہی۔ چناں چہ یہ طے نہیں ہوپایا کہ ایسی صورت میں کہ جب کسی
مرد کی عصمت دری ہو تو قانونی طور پر واضح زبان استعمال کی جائے تاکہ ایک
مرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے لئے قانونی مدد حاصل کرسکے۔ مردوں کے ساتھ
اینل ریپ اور خواتین کے ساتھ ورجائنل ریپ (anal rape of a man and vaginal
rape of a woman ) دونوں ہی گھناؤنے جرم ہیں، جن میں سے ایک جُرم کے لیے
قانون نہ ہونا ظلم ہے۔
جنیوا کی سماجی ڈیموکریٹک پارلیمنیٹری لارنس فیلمین رائیل کے مطابق جب کسی
شخص کا بنیادی جنیاتی عضو دوسرے شخص کے جسم میں داخل ہو، چاہے وہ اینل میں
ہو ویجائینا میں یا منہ میں، اور اس سب میں دوسرے فریق کی مرضی شامل نہ ہو
تو ایسے صورت حال کو عصمت دری کے جرم میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ اب چاہے
یہ مرد کے ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ دونوں صورتوں میں جرم ہے۔ ساتھ ہی وہ
کہتی ہیں کہ منہ کے ذریعے زبردستی جنیاتی عضو کے داخل کرنا بھی ریپ کے زمرے
میں آتا ہے۔ بہرحال اس پر بحث جاری ہے اور اُمید ہے کہ اس حوالے سے قانون
اپنی واضح اصطلاح پیش کرے گا۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ایسا سیکس جس میں مرد کا مرد سے عورت کا عورت سے
یا مرد کا جانور سے یا عورت کا جانور سے جرم ثابت ہو غیر فطری سیکس یا
غیرفطری جرم unnatural offence کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا PPC 377 کے
تحت عمر قید، دس سال قید یا کم سے کم دو سال قید ہے۔ دو سال قید کی کم سزا
اس صورت میں ہوتی ہے جب معاملہ جانور کے ساتھ جرم کرنے کا ہو ایسے میں ظاہر
ہے جانور بول نہیں سکتا لہٰذا کم سزا دی جاتی ہے۔ خواتین کے ریب کے حوالے
سے پاکستان میں قانون وہی کہتا ہے جو بن الااقوامی قوانین میں کہا گیا۔ اور
اس کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کا قانون بنایا گیا تھا لیکن اسلامی نظریاتی
کونسل کی تجویز کے مطابق فقط ڈی این اے ٹیسٹ کے بنیاد پر سزا نہیں ہوسکتی۔
ڈی این اے کو "ضمنی " شہادت کے تصور کیا جائے گا۔
ایسے کیس بھی PPC 377کے تحت ہی دیکھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مرد اپنے ساتھ
زیادتی کا مقدمہ دائر کرتا ہے تو اس کے لئے ریپ نہیں بلکہ غیر فطری جبری
سیکس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے ایسے کیسز میں یہ ثابت کرنا
مشکل ہوتا ہے کہ جرم کرنے والا کون تھا۔ دوسری طرف پاکستانی قوانین کے
مطابق زنا PPC 376 میں آتا ہے جس کی سزا عمر قید یا موت ہے۔ دونوں قوانین
کو دیکھا جائے تو مردوں کے ساتھ زیادتی کا کوئی الگ سے قانون ہمیں یہ واضح
بات نہیں ملتا۔
آبروریزی کی اصطلاح کبھی کبھی جنسی حملے کے متبادل کے طور پر بھی استعمال
کی جاتی ہے۔ اس کی نفسیاتی وجہ معاشرے میں وہ موجود وہ گھٹن ہے جس میں مرد
کو طاقت ور اور عورت کو کمزور دکھایا اور سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً مرد اپنے
اوپر ہونے والے ظلم پر عمر بھر خاموش رہتا ہے اور یہ خاموشی اس کی تمام
زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق ایسے مرد جنھیں بچپن
میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اپنی زندگی میں نہایت ہائیپر
سیکچوئل ثابت ہوتے ہیں یا درندگی کی حد تک سیکس کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں
کہ یہ سب وہ خوشی سے کرتے ہیں۔ اکثر مرد اپنی اس حیوانی خواہش کی وجہ سے حد
درجہ پریشان رہتے ہیں اور خود پر قابو پانا چاہتے ہیں لیکن ایسا کرنا ان کے
اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے پارٹنر اپنی شریکِ حیات کو بھی
تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں اور اگر شریکِ حیات سے مطلوبہ خواہش پوری نہ
کرسکیں تو پھر دوسری عورتوں میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کال
گرلز سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ایسے مرد اپنی اولاد لڑکے ہوں یا لڑکیاں
دونوں کے معاملے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں ،جس سے ان کے بچے خوداعتمادی سے
محروم ہوکر معاشرے میں خود کو اَن فِٹ محسوس کرتے ہیں۔عالمی سطح بشمول
پاکستان میں اس بات کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنسی جرائم کو صنف
کی بنیاد پر طے نہیں کیا جانا چاہیئے۔ یہ مردوں کے بنیادی حقوق کی خلاف
ورزی ہے۔ |