معاشرے میں میڈیا( خاص کر ٹی وی ) کا کردار

ٹیلی ویژن کبھی پورے خاندان کو جوڑے رکھنے کی وجہ تھا لیکن اب ٹی وی کی وجہ سے سے گھر والے ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی ترستے ہیں

دنیا بھر کی طرح آج پاکستان میں ٹی وی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ٹی وی کی افادیت اور اس کے عوامی مسائل کے بارے میں آگاہی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ نے 1997 میں 21 نومبر کو ٹی وی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کبھی پورے خاندان کو جوڑے رکھنے کی وجہ تھا لیکن اب ٹی وی کی وجہ سے سے گھر والے ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی ترستے ہیں۔کبھی سب گھر والے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ، خوش گپیاں کرتے، چینل بدلنے پر نہ تو تکرار تھی نہ ٹی وی کا ریموٹ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی ضد۔پھر وقت کاپہیہ گھوما،اور ٹی وی پر 100 150 چینلز کی بھرمار ہو گئی اب بچے کارٹون دیکھنا چاہتے ہیں توخواتین ڈرامہ ، اور مرد کبھی خبریں تو کبھی میچ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیلی ویڑن ہال سے کمرے میں جا پہنچا اور ٹی وی نے ہی افراد میں دیواریں کھینچ دیں۔ اب سب کے ہاتھ میں ہے اپنا ریموٹ جو چاہیں سو دیکھیں سب خوش مگر سب ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں.

میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ، خاص کر ٹی وی جو معاشرے کے سنوار میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے،وہیں کسی حد تک معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ پہلے زمانے میں ٹی وی خاندان کی انٹرٹنمنٹ کا واحد ذریعہ تھا اور ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا تھا اب فی زمانہ ملک کے بیشتر ٹی وی چینلز،ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے اس قدر فحاشی اور بے حیائی پیدا کر رہے ہیں کے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا محال ہے۔ بعض اوقات اچانک ایسی شرم ناک خبر آتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ آج کل ہر نیوز چینل پہ بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبروں کو اس طرح نمود و نمائش کرکے اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کے فیملی کے ساتھ بیٹھ کے خبروں کو نہیں دیکھا یا سنا جا سکتا کہ کب اور کیا خبر اچانک نشر ہو جائے. یا تو ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں ریڈی رکھو کہ کوئی ایسی خبر آجائے تو فوراً چینل تبدیل کردیا جائے.

باقی ماندہ کسر اشتہارات نکال دیتے ہیں۔ اشتہارات میں موضوعات کم اور ماڈلز کی نمائش زیادہ ہوتی ہے۔ جن پروڈکٹ میں خواتین ماڈلز کی ضرورت بھی نہیں اس میں بھی ایسے ایسے انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ بزرگ اور بچوں کے سامنے فوراً چینل تبدیل کرنا پڑتا ہے.

جب کہ کیبل پر چلنے والے دیگر چینلز کے پاس کیونکہ معیاری پروگرامز نہیں ہوتے تو وہ اخلاق ساز بھارتی پروگرامز نشر کرتے ہیں،جنہیں ہماری خواتین اپنے کام زیر التوا رکھ کر بڑی دلچسبی سے دیکھتی ہیں۔ نتیجتا گھر گر ہستی اور بچوں کی تربیت کا ہوش ہی نہیں. اب اگر عدالت کے حکم پر پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھارتی ڈراموں اور کیبل چینلز پر بھارتی فلموں پر پابندی لگی ہے جس کا سب سے زیادہ غم اور دکھ ان متوسط گھریلوں خواتین طبقے کو ہے جن کی آدھی جان اپنے بچوں اور گھر والوں سے زیادہ اُن بھارتی ڈراموں میں ہے جو کہ ان خواتین کی انٹرٹنمینٹ کا واحد ذریعہ ہے اورآن خواتین کا لگاؤ اپنے بچوں کی تربیت سے زیادہ ان چال ساز اور ہماری تہذیب سے آری ڈراموں میں ہے.

دوسری طرف قوم کے بچے اپنے قومی ہیروز کے ناموں سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن بھارتی فلموں کے ہیروز کے نام اور ان کے اخلاق باختہ ڈایٔلاگز انہں بخوبی زبانی یاد ہیں۔ حال ہی میں ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا جب وہاں کھانے لگے تو ایک بچے نے اپنے والد سے پوچھا ابو کھانا لگ رہا ہے مگر یہاں شادی تو ہوئی ہی نہیں۔ والد نے کہا بیٹا شادی تو ہو گیٔ ہے۔ جس پر بیٹے نے کہا ابھی پھیرے تو ہوۓ ہی نہیں۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی میڈیا ہماری تہزیب و ثقافت کو کس طرح بگاڑ رہا ہے۔

آج کل اکثر پاکستانی ٹی وی چینلز پر آگاہی کے نام پر بچوں سے ذیادتی کے عنوان پر ڈرامے نشر ہو رہے ہیں جن میں مہذب اور پاکیزہ رشتوں کا غیر اخلاقی طریقے کار اور بہیودہ سوچ و نیت کی عکاسی کی جارہی ہے اور ایسے ایسے طریقے اور گر بتاۓ جا رہے ہیں جو کرمنل سوچ اور طبیعت کے لوگوں کو مزید جرم اور گناہ کی طرف بڑھاوے کا سبب بن رہے ہے. ابھی حالیہ دنوں کی بات ہے کہ خبرنامہ میں ہی دیکھا کہ ایک بندہ جسکو اپنی کسی رشتے دار کی کمسن بچی کے ساتھ زیادتی کے کیس میں گرفتار کیا گیا. اور اس نے یہ اعتراف کیا کہ اس کو یہ عمل کرنے کا آڈییا پاکستانی ڈراموں میں دیکھاۓ جانے والے طریقے سے ملا اور میں نے وہ ہی طریقے پر عمل کیا. اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ٹی وی پر اچھا بُرا جو بھی دکھایا جاتا ہے وہ عوام الناس کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ انسان کی اچھی یا بری سوچ کو پنپنے کا سبب بنتا ہے.

جرایٔم پر مبنی پروگرامز اور ڈراموں میں جرایٔم کرنے کے ایسے ایسے گر بتایٔے جا رہے ہیں کہ جس سے معاشرے میں بجاۓ عبرت کہ روز بہ روز کرایٔم میں اضافع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بقول کسی دانشور کے کہ برائ کو جتنا عام( دکھایا/بتایا ) کیا جائے گا وہ اتنی ہی پھیلے گی. لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا خاص کر ٹی ویپر نشر ہونے والے پروگراموں پر خصوصی توجہ دے اور اخلاقیات پر مبنی پروگرامز دکھاۓ جس سے معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو میڈیا اور خاص طور پر ٹی-وی آج اپنی سمت درست کر لیں گے تو کل اپنی بچوں اور معاشرے کو ایک صحت مند پاک صاف معاشرہ دے پایٔں گے۔

Kanwal Naz
About the Author: Kanwal Naz Read More Articles by Kanwal Naz: 5 Articles with 7520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.