مسیحا کی واپسی

تھرپارکر پاکستان کے صوبہ سندھ کے 29 اضلاع میں رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کی آبادی 1.65 ملین جبکہ رقبہ 19,638 مربع کلومیٹر ہے۔ کل آبادی کا صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے۔ اور یہ صوبہ سندھ کا سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ اس کے شمال میں میرپور خاص اور عمرکوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بار میر اورجیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔

ضلع تھرپارکر سے متعدد شخصیات قومی منظرنامے پر ابھر کر آئیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

آفتاب شاہ جیلانی وفاقی وزیر کھیل (بمطابق 2009ء)، سابق وفاقی وزیر زراعت، ارباب غلام رحیم سابق وزیر اعلی سندھ، علی نواز شاہ سابق وفاقی وزیر زراعت، رانا چندر سابق وفاقی وزیر اقلیتی امور، مائی بھاگی مشہور لوک گلوکارہ۔ مگر اس کے باوجود تھرپارکر کے حالات میں بہتری کے لیے کسی نے خاطر خواہ کوشش نہ کی۔ اور یہ ضلع کئی مرتبہ خشک سالی اور قحط کا شکار ہوا۔ حکومتی نمائندے اپنی جیبیں تو بھرتے رہے مگر ان لوگوں کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں۔ حالیہ دنوں میں نئی حکومت کے گورنر سندھ عمران اسماعیل 58 گاڑیوں کے پروٹوکول میں قحط زدہ تھرپارکر کا دورہ کرنے آئے۔ یہ اسی جماعت کے گورنر ہیں جو سٹیٹس کو کا خاتمہ چاہتی ہے۔ کیا تبدیلی ہے جس میں صرف چہرے بدلے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔

تھرپارکر میں قحط سالی اور غذائی قلت کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ بند نہ ہوا، سول اسپتال مٹھی میں زیر علاج مزید دو بچے دم توڑ گئے۔ اس قسم کی خبریں آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔

صحرائے تھر میں ایک طرف قحط سالی کی صورتحال بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب غذائی قلت اور وبائی امراض کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق رواں سال مرنے والے بچوں کی تعداد 503 تک پہنچ چکی ہے۔ اور گورنر سندھ اپنے دورہ میں کسی ہسپتال تو جا نہ سکے البتہ ایک نجی سکول کا دورہ ضرور کر آئے۔

پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے، بھوک سے ستائے اور وبائی امراض سے پریشان یہ لوگ کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ جماعت الدعوۃ پاکستان کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن جس کو اس ضلع کے لوگ بجا طور پر اپنا محسن مانتے ہیں گزشتہ چند ماہ سے بیرونی دباؤ کے زیر اثر صدارتی آرڈیننس کی وجہ سے زیر عتاب تھی۔ اور اس کی فلاحی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ مگر اب سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابندی کے خاتمہ کا فیصلہ دے دیا ہے۔ فلاحی سرگرمیوں کی اجازت پاتے ہی فلاح انسانیت فاونڈیشن نے تھرپارکر میں حالیہ صورتحال کے پیش نظر امدادی آپریشن شروع کر دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے 3500 خاندانوں میں خشک راشن تقسیم کیا گیا ہے۔ دوردراز گوٹھوں میں فری میڈیکل کیمپوں پر ہزاروں مریضوں کا طبی معائنہ کیا گیا ہے۔ کنوؤں اور سولر واٹر پروجیکٹس کا کام مزید تیز کر دیا گیا ہے۔ اب تک 2800 پانی کے منصوبہ جات مکمل کیے جا چکے ہیں۔ جن سے لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی مستفید ہو رہی ہے۔ تھر پارکر میں مستقل طور پر علاج معالجہ کی سہولیات کے لئے دو ہسپتال بھی زیر تعمیر ہیں۔ دیگر شہروں سے بھی تھر پارکر کے لئے امدادی قافلے روانہ ہو رہے ہیں۔

فلاح انسانیت فاونڈیشن لاہور کی جانب سے گذشتہ روز روانہ کیے جانے والے سامان کی تفصیل درج ذیل ہے:

خشک راشن: 1000 خاندان
بچوں کے ملبوسات و گفٹ پیک 2000
خواتین کے ملبوسات و جوتے 2000

مجموعی طور پر 35 لاکھ روپے مالیت کا امدادی سامان روانہ کیا گیا۔

عوامی خدمت کے یہ منصوبے جاری رہنے چاہیئیں تاکہ پسماندہ علاقوں کے محروم عوام زندگی کی بنیادی سہولیات پا سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس بے بسی کو مٹانے کے لیے سنجیدہ اقدام لے اور فلاحی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خدمات کو سراہا جائے۔

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 107482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.