چلتے چلتے پیر دکھنے لگے تھے مگر ابھی اسے کافی آگے جانا
تھا. پچھلے چار دنوں میں جو کچھ ہوا گویا وہ ایک بھیانک خواب تھا جو اس کے
ساتھ جیتے جاگتے ہوا.
محنت اس کی گھٹی میں شامل تھی. اسے پیدل چلنے کی عادت تھی. مگر شاید وہ
ذہنی تھکن تھی،جواس کو اس قدر تھکا رہی تھی.
سڑک کافی کشادہ تھی مگر نہ جانے کیوں اسے محسوس ہوا کہ وہ جس جگہ ہے وہ
کافی تنگ ہے خیال آنے پر اردگرد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ، سڑک چھوٹی نہیں
تھی بلکہ وہ جس سڑک سے گزر رہا تھا وہاں دونوں طرف گاڑیوں کےشو رومز اور
بڑے مشہور کھانوں کے ریسٹورینٹ تھے جنہوں نے آدھی سے زیادہ سڑک کو گھیرا
ہوا تھا. پیدل چلنے کی جگہ بھی گھیری ہوئی تھی اسے حیرت اور دکھ ہوا وہ چار
دنوں سے جس اذیت میں تھا اور جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا کہ اس کا گھر، اور
ریڑھی توڑ پھوڑ دی گئی وہ ان تجاوزات کو ہٹانے کے چکر ہی میں تو ہوا تھا.
یہ آج کل اس ایک عام آدمی کی کہانی ہے جو بھتہ دے کر تجاوزات پر زندگی بسر
کر رہا ہے.
پاکستان کے بڑے شہروں میں جس سڑک یا گلی سے گزریں، وہاں تجاوزات کی بھرپور
موجودگی اس قدر عام ہے کہ اب کچھ نہ ہو تو عجیب سا خالی پن محسوس ہوتا ہے.
تجاوزات کی ایک صورت ان بڑے چھوٹے شو رومز کا عمل ہے،جو وہ روا رکھے ہوئے
ہیں اور جو سراسر غیر قانونی ہے .فٹ پاتھ تو ان کا لیے ہی ہوتا ہے مگر ساتھ
میں سڑک پر دو سے تین گاڑیاں کھڑی کرکے سڑک گھیرنا ان کے لیے معمولی سی بات
ہے.
کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں کم و بیش یہی صورت حال ہے.مگر ان شہروں کے
خاص علاقوں میں تو گویا ان کی اجارہ داری قائم ہے.
تجاوزات کی دوسری صورت کھانے کے ریسٹورنٹ ہیں. جگہ جگہ کھڑے کھانے کے تھڑے
ختم کرنا بھی درست ہے، مگر مقامی و غیر مقامی فوڈ چینز نے سڑکوں کو جس طرح
گھیرا ہے، اس سے نہ صرف آنے جانے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے
بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی گھر سے باہر کھانے کی دوڑ میں شامل ہونا پڑتا ہے.
کیونکہ جب بچے آپس میں اس حوالے سے بات کرتے ہیں تو ان جگہوں پر نہ جانے
والے بچوں کو تعلیمی اداروں، اور دیگر موقعوں پر آپس میں ہی بچوں میں اس
قسم کے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ گھر والوں کو وہاں جانے پر آمادہ
کر دیتا ہے.
اس طرح کے کھانے پینے کے مراکز بھوک رکھ کر کھانے، رزق میں دوسرے کے حصے کے
شامل ہونے اور ضبط کے مظاہرے پر ہنستے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.
پاکستان میں امیر افراد تمام آبادی کا کل آٹھ فیصد ہیں. مگر دولت کی انتہا
کا یہ عالم ہے کہ اگر یہ ہی دولت پورے ملک کی آبادی میں تقسیم کردی جائے تو
وہ تمام آبادی کو خوشحال کردے اور ان کے لیے کافی ہوگی.
اس آٹھ فیصد آبادی کے لیے ملک کو بدلنا دانشمندی نہیں ہے. معاشی انقلاب کی
دوڑ، اس آٹھ فیصد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہے اور اس آٹھ فیصد نے جس
طرح ملک میں حد سے تجاوز کیا ہوا ہے اس کو روکنے کے لیے اقدامات کا کیا
جانا بہرحال بہت ضروری ہے اور ہمارا مطالبہ بس یہی ہے کہ؛
آؤ مل کر اس زمیں پر کہکشاں ترتیب دیں. |