جناب پروفیسرڈاکٹر محمود علی انجم صاحب نے اپنی کتاب نور
عرفانْ میں یہ واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ اور کانگریس کے
مشترکہ اجلاس میں کچھ شر پسند عناصر نے ہنگامہ برپا کر دیا، ہر طرف شور
شرابہ برپا ہو گیا۔ جلسے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے چوٹی کے رہنماء موجود
تھے۔رہنماوں نے سامعین کو چپ کرانے کی کوشش کی حتی ٰ کہ نہرو اور گاندہی
بھی سامعین کو چپ کرانے میں ناکام رہے۔ جب سب رہنماء ناکام ہو گئے تو قائد
اعظم محمد علی جناح سٹیج پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے مجمع میں موجود سامعین پر
طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی شہادت والی انگلی بلند کر کے تحکمانہ لہجے میں
بلند آواز سے کہا Silence
مجمع میں ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔
مجھے زندگی میں لا تعداد سیاسی رہنماوں، مذہبی مبلغین ، روحانی شخصیات ،
سیلز کی دنیا کے ماہرین کو سننے کے مواقع ملے ہیں ان میں چند ہی لوگ ہیں جن
کی باتیں اثر انگیز رہیں۔ ایک درگاہ کے باہر بیٹھا ملنگ ، جو سیف الملوک اس
محویت سے پڑہا کرتا تھاکہ راہ چلتے لوگ اس کی ٓواز سن کر کھنچے چلے آتے تھے
اس کی آواز میں خداد سحر کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملنگ میاں محمد بخش
کی شخصیت میں کھو کران کی ذات کا تعارف حاصل کر چکا تھا۔
عوام میں ذات کا تعارف شخصیت کا وہ پہلو ہوتا ہے جو انسان کے اعمال کے بل
بوتے پر بنتا ہے ۔ سیرت البنی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں نے حاضر ہو
کر عرض کی کہ میرا بیٹا گڑ کھانے کا رسیا ہے اس کو نصیحت فرما دیں ۔ ارشاد
ہوا کل بیٹے کو لانا۔ ماں دوسرے دن بیٹے کو لے کر حاضر خدمت ہوئی تو نبی
اکرم ﷺ نے اسے گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی تو ماں نے عرض کیا یہی بات آپ کل
کہہ دیتے تو ارشاد ہوا کل خود میں نے گڑ کھایا ہوا تھا۔
نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو ناصح کے یقین کا پرتو ہو۔اصل یہ ہے کہ تبلیغ
وہی موثر ہوتی ہے جس پر مبلغ خود بھی عمل پیرا ہو۔عمل سے پہلے کے زینے کا
نام ارادہ ہے ۔ ارادے کو عمل کی بنیاد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ارادہ مضبوط
ہو گا تب ہی عمل کا روپ دھارے گا۔ارادے سے بھی پہلے خیال نام کا زینہ آتا
ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ارادہ تب ہی بنے گاجب اراد پختہ ہو
گا۔ارادے کا اظہار زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ صادق زبان سے نکلے الفاظ کی
ہیبت ہوتی ہے جو جلسوں میں شر پسندوں کو مرعوب کرتی ہے۔ صادق و امین زبان
سے نکلے الفاظ قلوب کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات میں کھو جانے کے لیے اس
ذات کا ملنگ بننا پڑتا ہے ۔ ناصح کی زبان کی زبان اثر پذیر ہونے کے لیے عمل
میں استقامت کی متقاضی رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے مبلغ کو عمل کی سیف میان سے
نکال کے رکھنا لازم ہے۔
شاعر نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے (علامہ اقبال : جوب شکوہ) |