بابر فاروقی
عافیہ پر اﷲ نے عزت و شہرت کی بارش بھی کی ،ظلم و بربریت سے بھی اُس کا
واسطہ پڑا ،مگر یہ سب تکالیف جسم و جاں کی تھیں ، اسکی روح پاکیزہ تھی ،
اسکی بشاست اور دلیری ایسی کہ وہ کسی مصیبت میں مبتلاہی نہ ہو ،اس نے نہ
صرف امریکہ جیسی سُپرپاور کے آگے اپنے موقف سے نہ پیچھے ہٹی بلکہ ر حم کی
درخواست کو ان صہیونی طاقتوں کے منہ پے دے مارا ،اور نہ امریکی زنداں خانوں
میں اس کے حوصلے پست ہوئے اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کی طرح اس نے کسی یو
ٹرن کا سہارا لیا ۔کل تک جو اپنی لیڈری چمکانے کے لیے نیٹو کی سپلائی روکنے
کا ڈھونگ رچا تے تھے آج وہ صاحب اقتدار ہیں- مگر ان کے کان پر جوں تک نہ
رینگی صرف ایک دن وزیراعظم صاحب اپنے دور اقتدار میں نیٹو کی سپلائی روک کر
تو دکھائیں اور امریکہ کو یہ پیغام دیں کہ عافیہ کی رہائی کا فی الفور
اعلان کیا جائے ،پھر ہم جانیں گے کہ آپ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
بات کرنا جانتے ہیں۔مگر یہ سب کچھ شاید آپ کے بس کی بات نہیں جس کا قوم کو
ادراک ہے جبکہ قوم کی بیٹی عافیہ نے آپ کو خط لکھ کر اپنی رہائی کا مطالبہ
بھی کیا مگر ہر طرف کی خاموشی ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ آپ
کی بیٹی تو آسیہ ملعونہ ہے جس کو تحفظ پہچانے اور عدالتی فیصلے کے باوجود
آپ نے اس کی داد رسائی کی اور اس کی رہائی کے فرمان جاری کروائے،عافیہ تو
مسلم اُمہ کی بیٹی ہے اور مسلم اُمہ کا جو حال ہے اس سے کون واقف نہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال ان ایام کی ہے۔ ملک بھر میں محسن انسانیت (ﷺ) کی ولادت
کے سلسلے میں ربیع الاول کے ابتدائی بارہ ایام بڑے جوش وخروش سے منا ئے گئے۔
حاکم وقت بھی اسلام آباد کے پُرفزا مقام میں درباری ملاؤں کو ایک حسین
اورپُر وقار ٹھنڈے کمرے میں لئے سیرت کانفرنس کرتے رہے ۔نبی علیہ السلام کی
سیرت پر خوب باتیں ہو تی ر ہیں، تما م اکابرین خلعت فاخرہ میں ملبوس
تھے،مشک و ا مبر سے مہک رہے تھے اور حاکم وقت کو اس قسم کی پرنور تقریب
منعقد کرنے پر داد تحسین بھی دے رہے تھے اور اس کے بعد ایک پر تکلف عشائیہ
کا بھی بندوبست بھی ہوا ہو گا مگر میرا سوال صرف اس ربیع االاول کانفرنس
میں شریک حاکم وقت اور علماء و مشائخ سے صرف یہ ہے کہ کیا مسلمان کی بیٹی
کفار کی قید میں ہو تو کیا میرے نبی کی سیرت یہی کہتی ہے جو آپ سب کے طرز
عمل سے نظر آرہا ہے ،آپ تو اﷲ والے لوگ ہیں اﷲ اور اس کے بتائے ہوئے راستے
پر چلنے والے لوگ ہیں۔میرا رب قرآن میں ارشاد فرماتا ہے جو شخص میری ہدا یت
اور میرے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے میں اس کاہاتھ اور اس کا کان بن جاتا
ہوں ،تو پھر آپ کا ہاتھ حاکم وقت کے گریبانوں تک کیوں نہیں گیا، آپ کے منہ
سے اس کانفرنس میں اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے کیوں آواز بلند نہیں ہوئی ،
وہاں پر تو موجود بڑے بڑے شعلہ بار خطیب اور سحر طراز صاحب قلم موجود ہوں
گے۔سحر انگیز خطابت اور دل میں اُتر جانے والی تقریریں ہو رہی ہوں گی۔اس سے
بہتر آپ کو اور کون سا موقع ملتا جہاں حکمراں بھی موجود اور آپ کے ساتھ
علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد بھی موجودہو مگر اﷲ نے آپ لوگوں کو یہ
توفیق بھی نہ دی۔ شاید کہ وہ دلوں حال خوب جانتا ہے۔ اس ملک میں لاکھو ں کا
اجتماع کرنے والے اور دین کا سبق رٹانے والی جماعت نے بھی اپنی بہن عافیہ
کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی نہ ہی اپنی اجتماعی طاقت سے اورنہ اپنی دعاؤ ں
میں حکومت وقت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔آپ لوگوں سے توسے تو بہتر
عیسائیوں کا وہ روحانی پیشوا ہے کہ جس نے اپنی بیٹی کو چھڑانے میں اپنا
کردار ادا کیابلکہ کامیاب بھی ہوا۔ مگر اس ملک کے حکمران، فوج ،اسٹیبلشمنٹ
،بیوروکریسی،سب مل کر اس ملک کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کرنے کے منتظر
ہیں۔
میں اپنی بات کو ختم کرنے سے پہلے آپ سب کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کی
خدارا اس وقت سے بچیں جب روز محشر عافیہ ہم سب کے لیے کہیں حجت نہ بن جائے
، یاد رکھیں پھر بہت دیر ہو چکی ہو گی ۔ ہماری عبادات، ہمارے نیک اعمال سب
ایک طرف۔ ہماری گردنیں اﷲ کے سامنے تو دور کی بات عافیہ صدیقی کے سامنے بھی
نہ اْٹھ سکیں گی۔جب وہ ہم سب سے پوچھے گی، میرے بھائیوں، میرے بیٹوں، میرے
بزرگوں میں امریکی زنداں خانوں میں قید تھی اور تم ربیع الاول کانفرنس منا
رہے تھے کیا نبی کی سیرت میں تم نے بیٹیوں کی عزت اور حرمت کا سبق نہیں
پڑھا، بیٹی کے تو آنسوؤں سے ماں باپ کے سینے چھلنی ہو جاتے ہیں۔مگر وہاں
میرا دور دور تک ذکر نہ تھا۔ تمہاری آنکھ اپنی بیٹی کے لیے کیوں اشکبار نہ
ہوئی ، تم نے میری رہائی کے لیے حاکم وقت سے ایک لفظ بھی نہ بولا۔آج بڑے
بڑے علماء و مشائخ اور ان ادوار کے تمام حکمرانوں سے پوچھتا ہوں اور اس
کانفرنس میں موجود تمام لوگوں سے سوال کرتا ہوں کیا کوئی ہے جو روز محشر
عافیہ صدیقی کو جواب دے سکے گا ۔یاد رکھیں، اﷲ نے جس کو جتنا طاقتور بنایا
ہے چاہے وہ فرد واحد ہی کیوں نہ ہو،اس کی حیثیت کے مطابق اس سے پوچھاجائے
گا ۔ ابھی وقت ہے ، سانسیں چل رہی ہیں، اپنی بہن کی رہائی میں ہر کوئی اپنا
حصہ ڈالے اور اپنے رب کو راضی کرلے ۔آخر میں میں یہ بات ضرور کہوں گا
کیونکہ جانتا ہوں اس لئے امانت لوگوں تک پہنچا رہا ہوں کہ سیاست کو خدمت کی
مثال بنانے والے جناب الطاف شکور، اعظم منہاس اور اس شہر کراچی کا فخر
عبدالحاکم قائدیہ وہ نام ہیں جن کے لیے میں اپنے رب کے سامنے گواہی دوں گا
کہ میرے مالک یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی بہن کی رہائی کے لیے اپنا تن من
دھن سب قربان کیا،مانا کہ یہ کمزور سہی مگر اپنی بہن عافیہ کو ان ناپاک
وحشی درندوں سے نکالنے میں اور اس کو وطن واپس لانے میں آج تک اپنا کردار
ادا کر رہے ہیں ۔ |