پچھلے کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا کا مزاج دیکھ رہا ہوں کہ
افواجِ پاکستان کے افسران ہوں یا پولیس کے انکی معمولی سی بات کو بھی بہت
اچھالا جاتا ہے۔۔۔
اور ہمارے سو کالڈ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ تو اپنی عقل شاید گروی رکھ کر آئے
ہیں نا۔۔۔ کہ جو بھیڑ چال ہے اسی کی پیروی کرنی ہے۔۔۔ جو چال چل رہی ہو اسی
پر چل پڑتے ہیں اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے کاپی پیسٹنگ عروج پر ہے۔۔۔ اور
اللہ کے بندو اپنی بھی عقل استعمال کرو۔۔۔ لوگوں کو اپنے خیالات بھی سمجھاؤ۔۔۔
اپنی سوچ رکھو۔۔۔ اپنے نظریات رکھو۔۔۔
تو بات ہو رہی تھی کہ آرمی کا کوئی آفیسر ماہ میں ایک آدھ دفعہ یا گاہے
بگاہے کسی آپریشن میں جامِ شہادت نوش کرتا ہے یا بہادری کے جوھر دکھاتا ہے
اسے ایسے سراہا جاتا ہے کہ سب طرف اُسی کی ہاہاکار مچی ہوتی ہے۔۔۔
انکی اس عظیم قربانی اور مرتبت سے انکار نہیں لیکن۔۔۔
کیا قربانیاں صرف افسران ہی دیتے آئے ہیں کیا انکے ماتحتین کہ جنکی
قربانیوں کو شمار کیا جائے تو افسران انکے عشرِ عشیر بھی نہیں۔۔۔ ان
ماتحتین کی قربانیوں کا کوئی مول نہیں۔۔۔؟؟؟ ان کے بہادری اور جوانمردی کے
قصے سنانے والا کوئی نہیں ہے کیا؟؟؟ یا پھر ہم انھیں اس قابل ہی نہیں
سمجھتے کہ انکے لیئے اپنے قلم کو جنبش دیں۔۔۔ ان کے لیے اپنی ان صلاحیتوں
کا استعمال کریں کہ کل جن صلاحیتوں کے درست استعمال کا ہم سے سوال ہوگا۔۔۔
ہاں وہ کیپٹن ارسلان ستی ہو یا کرنل عابد ہو یا دیگر غیر مذکورہ افسران کہ
جو اس دھرتی کو اپنے لہو سے سینچ گئے ہیں۔۔۔ ان سب کی قربانیاں سر آنکھوں
پر۔۔۔ انکی عظمت کو سلام۔۔۔ لیکن ان کیلئے تو ہمار قلم چلے اور چلنے کا حق
ادا کرے لیکن ان سپاہیوں کا ہمیں نام تک معلوم نہیں کہ جو انھی معرکوں کے
دوران اپنوں سے جدا ہو کر داغِ مفارقت دے گئے۔۔۔
بالکل یہی معاملہ کل سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی خاتون افسر سوہائی تالپور
کی ہے کہ جس نے کل چینی سفارتخانے پر حملے کے آپریشن کلین اپ کی کمانڈ کی
اور میڈیا کی توجہ کی مستحق ٹھہری۔۔۔ ارے اس کی داد و شجاعت بجا لیکن۔۔۔۔!!!
ان دو بہادر سپوتوں کا کہیں ذکر ہی نہیں کہ جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے
پیش کر کے حملہ آوروں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا اور اس ملک کو اس
مادرِ مہربان کو ایک عظیم نقصان سے بچا لیا۔۔۔
ہاں میری مراد ASI اشرف اور کانسٹیبل محمد عامر خان کہ کل جو چینی کونسلیٹ
پر حملہ میں بہادری کی داستاں رقم کرتے ہوئے اپنی جان پیش کر کے اس دھرتی
کو اپنے لہو سے گلزار کر گئے۔۔۔
کوئی میڈیا ان کی جان کی قربانی کا تو ذکر کرنے سے قاصر ہے لیکن اس خاتون
افسر کی وہ تصاویر کہ جو پتا نہیں کسی فوٹو شوٹ کی ہیں یا کسی ریہرسل کی کہ
انھیں دکھا دکھا کر اس خاتون افسر کی بہادری اور جرآت کو سلام پیش کر رہے
ہیں۔۔۔
ارے لوگو کچھ تو ہوش کے ناخن لو۔۔۔ اسکا اپنی ڈیوٹی کو ادا کرتے ہوئے جائے
وقوعہ پر بروقت پہنچا شاندار عمل ہو سکتا ہے۔۔۔ اسکی اس عمل کی تعریف
کرو۔۔۔ لیکن اس تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے تو نہ ملاؤ نا۔۔۔
اسکی قربانی اور جرآت و ہمت بجا لیکن کیا اس قربانی کی اہمیت جان کی قربانی
سے زیادہ ہے جو کل سے میڈیا اسی خاتون افسر کے گن گائے جا رہا ہے اور سب
لوگ بھیڑ چال کا شکار ہو کر اس کو مزید پھیلائے جا رہے ہیں۔۔۔
اسکے تعریف کرو ضرور بالضرور کرو لیکن ان غریب جوانوں کیلئے بھی تو ٹسوے کے
دو آنسو بہاؤ نا کہ جنکے لواحقین انکی راہ تک رہے ہونگے۔۔۔
انکا بھی تو کوئی غم بانٹو نا۔۔۔
انکی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف سمجھو نا۔۔۔
یاد رکھو۔۔۔
جان کی قربانی ایسی قربانی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں ہے اس
قربانی کو جو بھی ادا کرے وہ قابلِ صد لائقِ تحسین ہے چاہے وہ افسر ہو یا
جوان یا سپاہی ہو۔۔۔ سب کی قربانی یکساں ہے۔۔۔ سب کو ایک ہی پلڑے میں تولو
اور سب کیلئے ایک سا سوچو اور ایک سا لکھو اور بیان کرو۔۔۔
بھیڑ چال کا شکار نہ ہو۔۔۔
|