وہ پچاس برس کا سُرخ وسفید پٹھان
تھا جس کی کُشادہ پیشانی اور با وقار چہرہ مجھے اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔
میرا دِل نہ چاہتے ہُوئے بھی اُس کی جانب کِھچا جارہا تھا۔ میں نے گاڑی کو
رُوکا، اور اُسکی جانب چلنے لگا۔ میرے ساتھیوں نے مجھے پیچھے سے پُکارا ۔۔۔
عشرت بھائی ٹہرو کہاں جارہے ہُو؟ مجھے اپنے دوستوں کی آواز یُوں محسوس
ہُوئی ، گویا کوئی گہرے کنویں سے مجھے پُکار رَہا ہو۔
لیکن وہ سب جُو مجھے پُکار رہے تھے میرے اپنے تھے ۔ سُو میں ایک لمحے کیلئے
رُکا اور پلٹ کر اپنے دوستوں سے گویا ہُوا مجھے اُس شخص سے مِلنا ہے۔
سب گاڑی سے اُتر آئے اور مجھے سمجھانے لگے۔۔۔۔ کیا دِماغ خراب ہُوگیا ہے
تُمہارا؟
میں نے کہا ۔ کیوں کیا ہُوا؟
وہ کہنے لگے وہ ایک انجان اِنسان ہیں جب کہ ہَم تُمہارے اپنے ہیں ہمیں چھوڑ
کر کیوں ایک انجان رَاہی کے پیچھے جارہے ہُو۔
میں نے جواباً کہا نہ جانے اس شخص کی آواز میں کیسا درد ہے؟ جو مجھے اپنی
جانب متوجہ کر رَہا ہے جیسے وہ بوڑھا شخص مجھ سے کُچھ کہنا چاہتا ہے مجھے
اُسکی بات سُن لینے دو۔
وہ کہنے لگے ہَم جانتے ہیں اِس شخص کو ۔ وہ ایک جادوگر ہے اسکی باتوں میں
نہ جانے کیسا فسوں ہے جو اِسکی بات سن لیتا ہے وہ پتھر کا بن جاتا ہے اور
پھر پلٹ کر نہیں آتا اسلئے عشرت بھائی ہَم آپکو وہاں جانے نہیں دیں گے۔
میں نے بیخُودی میں کہا لیکن ایسا کیسے ممکن ہے مجھے صرف ایکبار اُس کی بات
سُن لینے دو۔
وہ سب کہنے لگے سنو عشرت اگر تُم اُس شخص سے جاکر مِلے تُو ہمیں کھو دو گے
اُن کے لہجے میں مُحبت کی مٹھاس کی جگہ نیم کی کڑواہٹ عود کر آئی تھی۔
دوستوں آج چاہے کُچھ بھی ہُوجائے چاہے مجھے اسکی کوئی بھی قیمت ادا کرنی
پڑے میں اپنے دِل کی آواز ضرور سُن کر رہوں گا آخر تُمہیں مجھ پر اور خُود
پر اعتماد کیوں نہیں ہے۔
وہ کہنے لگے اسکا مطلب ہے کہ تُم ہماری بات نہیں مانو گے؟
میرے مُنہ سے بے اِختیار نِکلا ۔۔۔نہیں۔
اُنہوں نے کہا پھر بھاڑ میں جاؤ اگر تُم واپس پلٹ بھی آئے تُو ہم سے کوئی
توقع نہیں رکھنا۔
تبھی دِل سے صدا آئی عشرت میاں برسوں کی رفاقت کو ایک انجانے شخص کیلئے
قُربان کرنا سراسر حِماقت ہے، بے وقوفی ہے ،پاگل پن ہے لُوٹ جاؤ۔
میں نے پلٹنا چاہا کہ میں بھی کسی انجان شخص کیلئے اتنی بڑی قیمت دینے کو
تیار نہیں تھا میں نے ایک لمحے کیلئے پلٹ کر دیکھا وہ سب دور گاڑی کے پاس
کھڑے تھے لیکن اب اُن سب کے چہرے دھندلے دِکھائی دے رہے تھے ، اجنبی اجنبی
سے چہرے تھے وہ سارے چہرے جو ابھی کُچھ لمحے قبل میرے اپنے تھے۔
میں نے ایک نظر اُس پٹھان پر ڈالی تو اُس چہرے کی چمک آنکھوں کو خیرہ کئے
دے رہی تھی کیسا سکون تھا اُسے کے چہرے پر اور کیسا یقین تھا اُسے خُود پر
جیسے وہ جانتا ہُو کہ میں پلٹ کر بھی واپس نہیں جاسکوں گا۔
پھر وہی صدا سُنائی دِی جاگتے رہنا بھائیوں جاگتے رِہنا اور پٹھان بے فکری
سے آگے بڑھ گیا جیسے اُسے میری پرواہ ہی نہ ہُو یا جانتا ہُو کہ میں ابھی
تمام بندھن تُوڑ کر اُسکے پیچھے پیچھے چلا آؤں گا ۔ میں بیخُودی کے عالم
میں اُسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا کُچھ دور جاکر وہ ٹہر گیا جیسے میرے قریب
آنے کا منتظر ہُو میں اُسکے عقب میں کچھ فاصلہ رکھ کر رُک کیا تبھی اُس نے
پیچھے مُڑے بغیر کہا ۔۔۔ عشرت میاں رُک کیوں گئے ؟
کیا مجھ سے خُوفزدہ ہُو؟ سُنو اگر ایسا ہے تُو واپس لُوٹ جاؤ یا اپنے خُوف
کو پیچھے چھوڑ آؤ میں نے ہمت جُٹائی اور چند قدم اور آگے بڑھ آیا۔۔۔ کیسا
پُرسکون چہرہ تھا اُسکا اور اِس عُمر میں بھی کتنا باوقار لہجہ تھا اُسکا۔
نہ چال میں تھکاوٹ تھی نہ کِسی غَم کا اندیشہ ہی اُسکی جبین سے چھلکتا تھا
۔ میں اُسکے مُقابل جا کر کھڑا ہُوگیا۔ اُس کے پیچھے مجھے اپنے دوست بھی
نظر آرہے تھے لیکن وہ سب مجھے بُونوں کی طرح نظر آرہے تھے اور میں سُوچ رہا
تھا کہ اِس شخص کا قد کتنا بُلند ہے کہ جسکے سامنے میرے اپنوں کا قَد کِتنا
گَھٹ کر رہ گیا ہے۔
میں نے اُسکے چہرے پر نظریں جما کر پُوچھا کیا نام ہے تُمہارا؟
وہ کہنے لگا نام میں کیا رکھا ہے عشرت میاں۔۔۔۔۔ ویسے لوگ مجھے رضائے محمد
کے نام سے بھی پہچانتے ہیں۔
کیا تُم جادوگر ہو؟ میں نے جھجکتے ہُوئے پُوچھا۔
کیوں تُم ایسا کیوں کہہ رَہے ہُو کیا میں تُمہیں چہرے سے جادوگر نظر آتا
ہوں؟
نہیں میں ایسا نہیں کہتا لیکن میرے دوست ایسا کہتے ہیں کہ جُو تُمہارے پاس
آتا ہے وہ پتھر کا بن جاتا ہے کیا یہ سچ نہیں ہے؟
وہ کہنے لگا دراصل تُمہارے دوست یہ تُمہارے اپنے سچ سُننا نہیں چاہتے
اِنہیں جھوٹ سے مُحبت ہے یہ سب جان کر بھی انجان بنے رِہنا چاہتے ہیں اسلئے
مجھ سے دور دُور رہتے ہیں کیوں کہ انکے پاس نہ ہی میرے سوالوں کا جواب ہے
اور نہ ہی کوئی دلیل ہے اِس لئے یہ سب مجھ سے خُوفزدہ رِہتے ہیں لیکن میں
جانتا تھا کہ ایک دِن تُم میری صدا پر ضرور کان دھرو گے اور میرے پاس لُوٹ
آؤ گے۔
تُم کیا کرتے ہُو بابا؟ میرے دِل میں لمحہ بہ لمحہ اُس بوڑھے شخص کیلئے
احترام کا جذبہ بیدار ہُورہا تھا اب وہ مجھے اجنبی بھی ہرگز نہیں لگ رَہا
تھا وہ کہنے لگا میں چوکیدار ہُوں۔
میں نے کہا اتنی سرد رات میں کیوں جاگ رہے ہیں آپ ۔ سُو کیوں نہیں جاتے۔
کیا آپکے بچے گھر پر آپکا انتظار نہیں کررہے ہُوں گے۔
وہ کہنے لگے اگر میں سُو گیا تُو پھر رکھوالی کُون کرے گا ؟ چُور نَڈر
ہوجائیں گے۔ اور پھر کوئی نہیں سُو پائے گا۔
میں نے کہا جب سبھی سُو رہے ہیں تُو پھر آپ یہ صدا کیوں لگا رہے ہیں ؟ کہ
۔۔۔ جاگتے رِہنا بھائیوں جاگتے رِہنا۔
وہ مجھے دیکھ کر ایسے مُسکرائے جیسے کسی نادان بچے نے کوئی عجیب بات بوجھ
لی ہُو۔
وہ کہنے لگے کیا تُمہیں لگتا ہے کہ میں لوگوں کو جگانے کیلئے یہ صدا لگاتا
ہُوں۔
میں نے حیرت سے اُنکے مُسکراتے چہرے کو دِیکھ کر کہا ۔اگر لوگوں کو جگانا
مقصود نہیں تُو پھر آپ صدا پر صدا لگا کر خُود کو کیوں تھکا رہے ہیں؟
اُنہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا بیٹا صدا لوگوں کو جگانے کیلئے
نہیں لگائی جاتی بلکہ خُود کو جگانے کیلئے لگائی جاتی ہے اِتنا کہہ کر وہ
آگے بڑھ گئے جب تک بات مجھے سمجھ آئی وہ نظروں سے اوجھل ہُوچُکے تھے میں نے
بھی پلٹ کر صدا لگائی ۔۔ جاگتے رِہنا بھائیوں جاگے رِہنا اور جب میں اپنوں
کے نزدیک سے گُزرا تُو میں نے دِیکھا کہ وہ سب پتھر کے بن چُکے تھے اور
اِتنا تُو مجھے بھی معلوم تھا کہ پتھر آوازوں کا جواب نہیں دِیا کرتے سُو
میں آگے بڑھتا گیا اور صدا لگاتا گیا۔۔ جاگتے رہنا بھائیوں جاگتے رہنا اور
بُہت جلد میں جان گیا کہ واقعی صدا لگانے سے نیند میری نظروں سے دُور چلی
گئی تھی اور مجھے اندھیرے میں بھی ہر چیز واضح اور چمکتی ہُوئی نظر آرہی
تھی۔ |