دُنیا بدبودار کیچڑ کی ایک دلدل ہے۔۔۔جس کے چھینٹے پاس سے
گزرنے والےکو بھی آلودہ کر سکتے ہیں۔۔۔اس کا تعفن دورسے ہی قدم روک لیتا
ہے۔اگر یہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں اسی دُنیا میں
رہنا ہے۔۔۔ ایک مقررہ وقت تک ۔۔۔ اس کی تمام ترغلاظت اورہولناکی جانتے
ہوئےبھی۔ اصل بات۔۔۔ اس سے بچ کر دور بھاگنا یا اس میں قدم رکھ کر اپنے آپ
کو آلودہ ہونے سے بچانا نہیں بلکہ اس کو پرکھ کر اس میں ڈوبنے سے خود کو
بچانا ہے۔ توبہ کا 'آب ِزم زم' ہروقت پاس ہے لیکن آب ِزم زم کی وافر
دستیابی کو جواز بنا کر دُنیا کے اندر ہی اندر جانے کی خواہش سراسر حماقت
ہے۔ یہ دُنیا جو دور سے کتنا ہی خوفناک منظر کیوں نہ پیش کر رہی ہو۔اس میں
قدم رکھ کر آنکھ یوں بند ہوتی ہے کہ ہرطرف رنگوں اور خوشبوؤں کی برسات ایک
لمحے میں سب اسباق بھلا دیتی ہے۔ دُنیا انسان کو خطرناک حد تک نابینا کرنے
کی صلاحیت رکھتی ہے اور اگر نابینا انسان کے دوسرے حواس بھی ساتھ چھوڑ دیں
تو پھرڈوبنا مقدر ہے۔ دُنیا میں ڈوبنے والا نجات پھربھی نہیں پا سکتا کہ اس
کا کھارا پانی جینے دیتا ہے اور نہ مرنےسے نجات کی صورت دکھائی دیتی ہے۔
انسان ساری زندگی محنت کرتا ہے۔۔۔ روپیہ پیسہ جمع کرتا ہے۔۔۔جائیداد بناتا
ہے۔۔۔ برے وقت کے لیے پس اندازکرتا ہے۔۔۔ نہ صرف اپنے سکون کے لیے بلکہ
اپنے اہل وعیال کے آرام وآسائش کے لیے جان توڑ کوشش کرتا ہے۔ زندگی اور
معاملاتِ زندگی ایسا کنواں ہیں کہ جتنا پانی نکالتے جاؤ پیاس بڑھتی جاتی
ہے۔۔۔ طلب کم ہوتی ہے اور نہ ہی رسد میں کمی آتی ہے۔۔۔یوں حاصل جمع ہمیشہ
صفر آتا ہے۔۔۔ بظاہرکتنا ہی مال ومتاع دکھائی کیوں نہ دے رہا ہو سب خرچ ہو
جاتا ہے۔ ایک وقت مقرر کے بعد جب واپسی کا نقارہ سنائی دیتا ہے۔۔۔ صرف وہی
ساتھ جاتا ہے جو دل کی "خفیہ" تجوری میں محفوظ کررکھا تھا۔۔۔ اور جس کے
بارے میں کوشش تھی کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو۔ ایسا بھی ہوتا ہے بلکہ
ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دولت یا وراثت جو کسی کے لیے جمع کی تھی آخری
وقت میں کسی اور کے کام آتی ہے۔احساس کا جوار بھاٹا سفر زیست کے ساتھ رنگ
بدلتاجاتا ہے۔زندگی کے لیے جسم سے زیادہ ذہن کی زندہ رہنے کی خواہش اہم ہے۔
دنیا کی چاہت ختم ہو رہی ہو لیکن ذہن کی تازگی برقرار رہے تو ذہن زندگی کا
ساتھ چھوڑنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا ۔ اُس لمحے جسم کو ایک نادان بچے کی
طرح اُس کی بات ماننا پڑتی ہے اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے،اس سمے خواہشوں کے
دیے ٹمٹمانے بھی لگیں لیکن امیدوں کے چراغ ضرور روشن رہنا چاہیں۔ جیسےکبھی
نہ کبھی مہیب کالے بادلوں سے ڈھکے آسمان پر کہیں نہ کہیں روشنی کی ایک کرن
جھلک دکھلا دے یا ایک خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ لمحہ بھر کوبجلی سی کوند
جائے،بس وہ ایک لمحہ اور اُس کے بعد اتنی جل تھل ہو کہ پیاسی مٹی سیراب ہو
کر دوسروں کے لیے آبِ حیات بن جائے۔بےشک انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی اس
نے کوشش کی ۔ لیکن ایک کوشش عمل سے پہلے نیت کی بھی ہے۔نیت کتنا کھری ہے؟
اور اس میں لالچ، خودغرضی اور انا کی کھوٹ کتنی ہے؟ وقتی چمک دمک کی ہوس ہے
یا ابدی روشنی کی تمنا؟۔
لمحۂ فکر یہ ہے کہ کرنے کا وقت ہماری اسی مادی زندگی تک ہی محدود ہے۔ہمیں
اپنی اسی زندگی میں اپنے آپ کو بھی مطمئن کرنا ہے اوراپنے دینی ودنیاوی
حقوق بھی احسن طریقے سے ادا کرنا ہیں۔اپنے اندر کی اواز پر دھیان دینا سب
سے اہم ہے اور یہی سب سے مشکل ہے۔ہم سب اپنےآپ کو جاننے کے دعوے تو کرتے
ہیں لیکن اکثراوقات ہماری طلب کی بازگشت ہماری ذات کے اندھے کنوئیں میں
ٹکرا کر رہ جاتی ہے۔ہم کبھی توسب فانی کہتے ہوئے مایوسی کو ضبط وبرداشت کے
پردے میں چھپا جاتے ہیں تو کبھی برداشت کی آخری حد سے گذر کر سب سودوزیاں
سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے ساتھ وقت گزارنے کا وقت کبھی نہیں ملتا۔ہماری
زندگی پر ہماری ذات کا اتنا ہی حق باقی رہتا ہے جتنا کہ ہمارا نام۔اہم یہ
ہے کہ اپنے قریب آنے میں بھی حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے، اپنے خول میں
سمٹنے والوں کو کبھی تو خود پسندی کی آگ جھلسا دیتی ہے تو کبھی خودترسی اور
ناقدری کا گہن دیمک کی طرح اندر ہی اندر سرایت کر کے احساس کھوکھلا کر دیتا
ہے۔ہم ساری زندگی اپنا وقت اپنے لیے چوری کر کے حاصل کرتے ہیں اور اس بچی
کچی خیرات میں سے آگہی کی کرنیں تلاش کر لینا ہی زندگی کمائی ہے۔
زندگی میں کامیابی کا فقظ ایک ہی راز ہے۔۔۔ اپنی اہلیت کو پہچاننا۔۔۔جانچنا
اور پھر اس کے مطابق سمجھوتہ کرنا۔ وقت کی پکار پردھیان رکھنا۔ وقت وہ
قیمتی اثاثہ ہے جس کی موجودگی کا ہمیں قطعاً احساس نہیں ہوتا۔وہ خاموشی
سےایک تابعدارخدمتگارکی طرح ہمارے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔ یہ آخری سانس تک
ہمارا ہوتا ہےاوراس کے بعد بھی۔۔ وقت کبھی ہاتھ سے نہیں نکلتا لیکن ہم خود
ہی اس کی قید سے نکل جاتے ہیں۔ |