ننھے منصف

سنا ہے دل روتا ہے
آنکھیں دیتی ہیں نظارہ آنسوؤں کا
کوئی آنچل بھیگنے لگتا ہے
آشیاں چھوٹنے لگتا ہے
زندگی خفا ہی خفا
جہان بھی ادھورا سا لگتا ہے

آذر معاف کردو پلیز،،،میں آئندہ امی کے گھر نہیں جاؤں گی،،،گئی بھی تو چوکھٹ
سے ہی واپس آجاؤں گی،،،جانتی ہوں آپ تھکے ہوئے گھر آتے ہیں،،،،میں نہ ہوں
تو آپ کا ناراض ہونا بنتا ہے،،،!!

آذر نے خدا بن کر اپنی بیوی کو دیکھااسکی سوچ اس بات سے آگے ہی نہیں جاتی
تھی کہ،،،کہ وہی اسکا خرچ،،،روٹی کپڑا،،،دوا دارو سب وہی کرتا ہے،،،ورنہ یہ بھوکی
مر ہی نہ جائے،،،چھوٹے سے گھر سے بڑے گھر لایا ہوں ،،کونسااب پہلی سی لڑکی
ہے ،،،نہ وہ جسم،،،نہ مورت نہ صورت،،،رہ گئی سیرت،،،بھلا اسکو میں کونسا چاٹنا
ہے،،،!!

فضول سی عورت بن گئی ہے،،،5 بجے کا بول کر جاتی ہے 7 بجا دیتی ہے،،پتا بھی
ہے کتنی محنت کرتا ہوں تب جاکر لائف اسٹائل تھوڑا سا اپ گریڈ کر پایا ہوں،،،!!

مجھے اس سے بہتر،،،خوبصورت،،،پڑھی لکھی لڑکی مل جانی تھی،،،،جانے عقل پر،،
کونسا پردہ پڑگیا تھا کہ ماں سے ضد کر بیٹھا،،،پتا نہیں اس کے گھر والے بھی اس
سے تنگ بیٹھے تھے فورا ہاں کردی،،، یہ میرے متھے لگ گئی،،،ہر وقت بچوں کے
جتن گھر کےکام،،،ہوم ورک،،ان کا نزلہ کھانسی،،خود اجڑے ہوئے موسموں کیطرح
بے رنگ سی،،،!!

مجھے کتناٹائم دینا ہے،،،میں کیا چاہتا ہوں،،،اسے کیا،،صائمہ اس کے آفس سے
آفس سے آنے کے بعد اسکے موزے اتار رہی تھی،،،وہ سوچ رہا تھا،،،اور وہ بس اپنے
مجازی خدا کی خدمت میں اس کے خیالات سے بہت دور کہیں اپنے،،،چمن کو،،،
سنوارنے میں مگن تھی،،پیروں پر نشان سے دیکھ کر وہ پیروں پر ٹیلکم پاؤڈر لگانے
لگی،،،آذر کو اس قدر سکون ملا کہ اس کی آنکھ لگ گئی،،،!!

صائمہ کچھ دیر بعد چائے کی آگ بجھا کر بچوں کے ہوم ورک میں لگ گئی،،،،اس
کی بیٹی نے معصوم سی آواز میں پوچھا،،،بابا سوگئے کیا؟؟؟،،،!!
صائمہ نے اثبات میں سر ہلایا،،اور اسکی پنسل پکڑ کر لکھنے لگی،،بیٹی ناراض سے
لہجے میں بولی،،،اسی لیے آپ کو ڈانٹا نہیں غصہ نہیں کیا،،،!!

صائمہ نے ناراض سی نظروں سے بیٹی کو دیکھا،،،اسکے کان میں بیٹے کی آواز آئی،،
اس کا مطلب ہے کل ماما کی پٹائی ہونے والی ہے،،،آج بابا نے بریک دی ہے،،،!!!!

صائمہ نے غصے سے دونوں بچوں کو دیکھا،،،مگر بچےکہیں اور ہی دیکھ رہے تھے
آذر دروازے پر کھڑا سب سن رہا تھا اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے،،،اس نے آگے بڑھ
کر بچوں کوسینے سے لگالیا،،،!!

مجھے معاف کردو میرے بچوں،،،جوہستی میرے جگر کے ٹکر کو سنوار رہی ہے،،،
دن رات اک کرکے خود کو ماررہی ہے،،،بابا آپ کی ماما کا آپ سب کا مجرم ہے تم
لوگ انمول ہو میں بہت ہی فضول،،،آذر اور نہیں بول پایا،،،صائمہ نے اس کے منہ پر
ہاتھ رکھ کر چپ کروا دیا۔

آذر مسکرا کربولا،،میرے بچوں جتنا مرضی شور کرنا،،جتنا مرضی کھیلنا،،بہت موج
کرنا،،،میں دیکھتا ہوں تمہارے بابا تمہیں کچھ بول کر تودیکھیں،،،!!

صائمہ اور بچے ہنسنے لگ گئے،،،آذر نےصائمہ کی طرف دیکھ کر کہا،،،آئندہ تم
ماں کے پاس نہیں جاؤ گی،،،جب بھی جانا ہو میں ساتھ چلوں گا،،،!!

بیٹی اچھل کر بابا کی گود میں آگئی،،،زور سے بولی،،،ماما بس پڑھائی کی چھٹی،،،!!
بابا اپنی پری کوگود اٹھاکر گنگناتا ہواچلاگیاصائمہ نے شکرانہ انداز میں آسمان ،،،
کیطرف اور بیٹے کیطرف دیکھا،،،اس کا شکر آنسو بن بن کر بہنے لگا،،،!!!
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1254086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.