ذرا سی بات

تحریر:شیبہ اعجاز
خالہ بی نے نہ جانے کیوں مجھ سے ضد سی باندھ لی تھی- بچوں کے کام آہستہ آہستہ اپنے ذمہ لے لیے تھے پہلے تو مجھے اندازہ نہیں ہوا لیکن جب ہر صبح وہ مجھ سے پہلے اٹھنے لگیں تو مجھے تشویش ہوئی ۔کل تو حد ہی ہوگئی میں جان کہ صبح فجر پڑھنے سے پہلے کچن میں آگئی اور بچوں کے لنچ کی تیاری شروع کردی ابھی دو منٹ بھی نہیں گذرے تھے کی خالہ بی کچن میں’’ارے خالہ بی آپ اپنی تسبیح پڑھیں میں کرلوں گی‘‘ ،میں نے غصہ کے باوجود بڑے تحمل سے کہا لیکن جی انہوں نے تو جیسے سنا ہی نہیں اور انڈے پھینٹنا شروع کردیے۔

میں نے بھی کمرے میں آکر نماز شروع کردی لیکن میرا دماغ اسی طرف لگا رہا۔ میں نے سوچ لیا تھا آج میاں جی سے ضرور بات کروں گی۔بچے اسکول جاچکے تھے اور خالہ بی اپنے کمرے میں جاکر دوبارہ سو گئیں تھیں۔اندرہی اندر میرادماغ کھول رہا تھا۔سمیع ناشتے کی میز پر آئے تو مسکراتے ہوئے بولے، ’’یہ غصہ برتنوں پہ کیوں نکل رہا ہے کیا ہو گیا آج صبح صبح ‘‘۔میں تو جیسے بھری بیٹھی تھی ،’’دیکھیں سمیع میں نے بہت برداشت کرلیا خالہ میرے ساتھ اچھا نہیں کررہیں وہ بچوں کو مجھ سے دورکررہی ہیں‘‘۔’’واہ واہ ! کیا خیال ہے اچانک کیسے ذہن میں آیا‘‘،سمیع نے طنز کیا

’’ میں مذاق نہیں کررہی ،وہ بچوں کے سارے کام خود کرنے لگی ہی۔ مجھ سے پہلے سب کچھ کرنے کی فکررہتی ہے انہیں اور اب توجتنی جلدی میں صبح اٹھوں دوسرے دن اس سے پہلے اٹھ جاتی ہیں‘‘،میں نے بات کرتے کرتے چائے نکالی اور میز پہ سمیع کے ساتھ ہی ناشتہ کرنے بیٹھ گئی مگر کچھ کھانے کا دل نہیں کررہا تھا عجیب سی بے چینی تھی۔’’تم کو وہم ہے بات کچھ نہیں ،بھلا وہ ایسا کیوں کریں گی‘‘؟ میں خاموش ہی رہی تو انہوں نے کہا،’’ تم ایساکرو تھوڑی دیر امی کی طرف ہو آؤ بلکہ میں تمہیں چھوڑتا ہوا آفس چلا جاؤں گا ‘‘۔مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی امی سے مشورہ کرونگی تو سکون مل جائے گا۔ گھر قریب ہونے کی سہولت بھی کسی نعمت سے کم نہیں ۔’’نہیں آپ جائیں میں ماسی سے کام کروا کے چلی جاؤں گی خالہ بی بھی جب تک اٹھ جائیں گی‘‘۔

امی کے گھر داخل ہوئی تو دال بھگارنے کی خوشبوسے ایک دم بھوک محسوس ہوئی ویسے بھی اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی میکہ میں کھانے کا مزہ ہی الگ ہے۔ پلیٹ میں دال چاول نکالے اور امی کے ساتھ بیٹھ گئی۔’’ بات کیا ہے ،کچھ خیریت نہیں لگ رہی ‘‘ ،میرے بے وقت آنے پر وہ حیران تھیں۔میں نے کھانا کھاتے ہوئے امی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا تو میری توقع کے عین مطابق وہ پریشان ہونے کے بجائے مسکرانے لگیں اور ان کے مسکراتے ہی میرا منہ بن گیا۔’’امی میں نے آپ سے آج تک کوئی شکایت نہیں کی اب آپ میری بات کوسن ہی نہیں رہیں ‘‘۔

’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں بیٹا کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا ‘‘َمیرا دل خود پریشان تھا کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا ہورہا ہے میں بالکل خاموش ہوگئی تو امی نے پلیٹ ایک طرف رکھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں،’’میں تمہیں غلط نہیں کہوں گی لیکن خود سوچو شادی سے اب تک کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہوئی تو اب کیوں اور اگر واقعی کوئی وجہ ہے تو خود سوچو‘‘۔ مجھے امی کی بات سے اتفاق تھا لیکن خالہ بی کو مسئلہ ہی کیا تھا کوئی ذمہ داری تو تھی نہیں ان کی۔ ہم سب ان کاخیال رکھتے تھے بس آج کل نئے گھر کی شفٹنگ میں تھوڑا مصروف ہوگئے تھے۔ بچے بھی ہر وقت اپنے کمروں کی سیٹنگ کی باتیں کرتے رہتے۔ نیچے خالہ بی کااور ہمارا کمرہ تھا باقی بچوں کے کمرے اوپر تھے۔

امی دروازہ کھولنے گئیں تو میں اپنے گھر کے بارے میں ہی سوچنے لگی سب ہی اپنی اپنی پسند بتارہے تھے سوائے خالہ بی کے۔امی واپس ائیں اور امی کے ساتھ محلے کی خواتین کو دیکھا تو میرے ذہن کی ساری گتھیاں سلجھ گئیں۔ جب سے نئے گھر جانے کا فیصلہ ہوا تھا تب سے ہی خالی بی کے رویہ میں تبدیلی شروع ہوگئی تھی ان کے اندر اکیلے پن کا خوف سر اٹھانے لگا تھااور انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کی اب بچے مجھ سے دور ہوجائیں گے لہذا میں بچوں کو اپنا اتنا عادی بنالوں کی وہ مجھے چھوڑ کی اوپر کی منزل پہ نہ جائیں۔امی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا ،’’یقینا تم.نے حل نکال لیا ہے اپنے مسئلہ کا‘‘۔

’’جی امی آپ کی مصروفیت نے مجھے اس مشکل.سے نکال لیا ہے، میری شادی کے بعد جب بھائی نوکری کی وجہ سے جدہ چلے گئے تو امی نے اپنے گھر میں عورتوں کے لیے تدریس قرآن کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ان کو اکیلے پن کا کوئی خوف نہیں تھااور اب مجھے خالہ بی کے دل سے بھی یہ خوف نکالنا تھا اپنائیت محبت اور اس یقین کے ساتھ کہ اگر ساتھ اچھا ہو تو صرف گھر بدلتے ہیں دل نہیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.