بچے کسی بھی ملک و قوم کا بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں اوران
کی امیدوں،ارمانوں اور آرزؤں کا مرکز بھی۔ قوم کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں
بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہی استوار ہوتی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ جو قومیں
اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ میں کامیاب ہوجاتی ہیں ان کا مستقبل
ازخودمحفوظ ہوجاتا ہے۔ نئی نسل کا استحکا م دراصل کسی بھی ملک و قوم کے
عروج وکمال کانقطہ آغاز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے افرینش سے ہر قوم نے
اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر غایت درجہ توجہ مرکوز کی ۔اسلام بھی بچوں کی
تعلیم و تربیت پربہت زیادہ زور دیتاہے۔ تعلیم نسواں کو نئی نسل کی تعمیرکی
وجہ سے ہی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے جہاں ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گا
ہ قرار دیا ہے وہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے بیٹیوں کی احسن تعلیم و
تربیت پر والدین کو جنت کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا ہے حتیٰ کہ آپ نے
باندیوں کی تعلیم و تربیت کی بھی خاص تاکید فرمائی ۔بچوں کی تعلیم و تربیت
کے باعث ہی جنت جیسی عظیم شئے ماں کے قدموں کے نیچے ڈال دی گئی۔بچوں کی
تعلیم و تربیت ہی مقصود تھی کہ اسلام نے شریک حیات کے انتخاب میں بھی صورت
کے بجائے سیرت کو فوقیت دینے کی تلقین کی۔بچوں کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے
علاوہ والدین پر ان کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی
ہے۔ماضی قریب تک والدین گھروں میں اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تعلیم و
تربیت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ اسے امتداد زمانہ کہیئے کہ مصنوعی مصروفیت
کا دور۔پہلے باپ عدیم الفرصتی کا شکوہ کرنے لگے پھر یہ وباء ماؤں سے بھی
چمٹ گئی۔مادہ پرستی کے آسیب نے والدین کو اپنی اولاد کی جانب نظر التفات سے
بھی روک دیا۔ اسلام نے بچوں کی ذہنی ،جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کو ملحوظ
رکھتے ہوئے نمازجیسی اہم عبادت کی عادت کے لئے بھی کم از کم سات سال کی شر
ط رکھی اور دس سال کے بعد ہی نماز سے کوتاہی برتنے اور عدم ادائیگی پر سز ا
دینے کا حکم دیا ۔لیکن مادہ پرستی نے فطری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ماں
باپ کو بچوں کی ابتدائی عمر میں ہی اسکولوں میں داخل کرنیپر مجبور کردیا۔
زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے اور خا ص طور پر مسلم معاشرے کی زبوں حالی کہ
ماضی قریب میں جہاں بچے پہلے پانچ یا چھ سال کی عمر میں داخل مدرسہ کیئے
جاتے تھے وہیں اب اسکولوں میں تعلیم کے آغاز کی عمر گھٹ کر ڈھائی تاتین سال
ہوچکی ہے ۔ بعض اسکول تو اب ڈیڑھ سال کے بچوں کو بھی اپنے اداروں میں قبول
کرنے لگے ہیں ۔ تعلیمی جبر کی انتہا یہ ہے کہ پہلے بچے اپنا آدھا دن اسکول
اور باقی آدھا دن اپنے والدین اور بزرگوں کے سایے میں گزارتے تھے اب و ہی
بچے باقی آدھا دن ٹیوشن کی لعنت کی وجہ سے اپنے والدین اور بزرگوں کی شفقت
سے بھی محروم ہیں۔پہلے والدین بچوں کی تربیت کو اپنی ذمہ داری بلکہ فرض
سمجھتے تھے لیکن آج یہ ذمہ داریاں رفتہ رفتہ اسکولوں کی صوابدید پر چھوڑدی
گئی ۔اب والدین اپنی ذمہ داریوں کو تعلیم گاہوں کے حوالے کرتے ہوئے صرف ان
سے باز پرس پر اکتفاء کرتے ہوئے مطمین ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی ظلم و جبر کی وجہ سے بچے آئے دن تعلیم اور اسکولوں سے متنفر ہوتے
جارہے ہیں۔ بچوں میں تعلیمسے دلچسپی پیدا کرنے اور اکتساب کو پروان چڑھانے
میں آج سب سے زیادہ اسکول کے اوقات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔طویل اسکولی اوقات
کار سے بچوں کی صحت او ر ان کی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
قریبی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے صبح 8:30بجے سردی ،گرمی
اور بارش میں پہنچنا دشوار نہ سہی دور درازکے علاقوں سے اسکول آنے والے
طلبہ کے لئے یہ امر یقیناً سوہان روح ثابت ہورہا ہے۔ نیند اور غذا ئیت کی
کمی کی وجہ سے طلبہ متعدد عوارض کا شکار ہورہے ہیں۔ افراتفری کے عالم میں
بچے صبح کا ناشتہ بھی ٹھیک طور سے نہیں کرپاتے ہیں کہ ان کو مدرسوں کی جانب
ہانک دیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کے وزن سے زیادہ بستوں کابوجھ ڈھوتے جب یہ
اسکول پہنچتے ہیں ان کی جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کا مداوا کرنے والا وہاں
کوئیموجود نہیں رہتا ۔اساتذہ بچوں کا ذہنی خلفشار دور کرنے کے بجائے اپنے
نصاب کی تکمیل میں دیوانہ وار جٹے ہیں ۔ آفتاب کی پہلی کرن سیتعلیمی دباؤ ،ذہنی
تناؤ اور فرسٹریشن میں گھرے بچوں سے بہتر تعلیمی مظاہرے اور تخلیقی افعال
کی انجام دہی کی توقع یقینا دن میں جگنو دیکھنیسے کم نہیں ہے۔8:30تا 4بجے
شام تک تھکا دینے والے تعلیمی اوقات نے طلبہ کے چہروں سے زندگی اور شگفتگی
کو چھین لیا ہے ۔ان کے چہروں سے ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ صاف نظر آتی
ہے۔کمرۂ جماعت کے روز مرہ کیبے جان و بے کیف معمولات بچوں میں امنگ، تازگی
اور توانائی بھر نے سے قاصر ہیں۔بوجھل اور بے لطف اکتسابی معمولات طلبہ کو
تخلیق ، تجرید اور تفکر سے دور کرتے جارہے ہیں۔صبح کا ناشتہ کھائے بغیر
اسکول پہنچے طلبہ کو مختصر لنچ بریک میں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں رہتا ۔مختصر
بریک کو غنیمت جان کر جب کھیلنے ،کودنیلگتے ہیں تو پھردوپہر کا کھانا بھی
ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کھاپاتے اور ٹفن باکس جیسے کا ویسا گھر واپس آجاتا
ہے۔گھر پہنچے نہیں کہ بغیر کچھ کھائے اور سستائے ہوم ورک کرنے بیٹھ گئے ۔
اس کے بعدٹیوشن کا آسیب انھیں اپنے شکنجے میں بھینچنیبے تاب رہتا ہے۔دیر
رات تک ہوم ورک کلاس ورک پراجکٹ اور اسکول کے دیگر کام کرتے کرتے بچے مضمحل
ہوجاتے ہیں اوربے سود نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔سال بھر ختم نہ ہونے
والا یہ معمول بچوں میں مایوسی،اضطراب اور دباؤ کو جنم دینے لگاہے۔ تعلیم
کے ایسے خوف ناک منظرنامے سے بچے سراسیماں و پریشان ہیں۔ بچوں کے چہروں پر
چھائی مردنی اور زردی ان کے بچپن کے قتل کی زیر لب داستان بیان کر رہی ہے۔
طلبہ رحم طلب نظروں سے والدین ،اساتذہ اور انتظامیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں
جیسے خاموش فریادکررہے ہوں خدارا! کوئی ہے جو انھیں روزمرہ کی مشقت سینجات
دلائے ۔ہے کوئی جو ان کی مشقت پر محبت اور شفقت کی پھوار برسادے۔ہے کوئی جو
اان کے کھیلنے کودنے کے حقوق بحال کردے۔
باشعور لوگ جانتے ہیں کساد بازاری، معاشی بحران اور شرح نمو میں گراوٹ سے
کوئی معاشرہ دیوالیہ نہیں ہوتابلکہ تعلیمی معیار کے ابتزال سے معاشرے تباہ
ہوجاتے ہیں۔ملک کی کرنسی کی قیمت میں گراوٹ دیوالیہ پن کی نہیں بلکہ تعلیمی
معیار کی گراوٹ معاشرے کے دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ تعلیم کو آسان اور
معیاری بناکر پیش کرنے والا نظام تعلیم عوام کی ضروریات اور ارمانوں کی
تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔مسائل اور وجوہات کی نشاندہی ہمارے لئے کوئی نئی
بات نہیں ہے یہ کام سالوں سے ہزاروں افراد انجام دیتے چلے آر ہے ہیں۔آج
معاشرے کومعیاری تبدیلی کی شدید خواہش رکھنے والے ایسے باہمت دردمند،فلاحی
اداروں اور افراد کی ضرورت ہے جونظام تعلیم کے معیار کو بتدریج بہتر
بناسکتے ہیں جو تعلیمی اداروں سے ہر سال بے مصرف خواندہ ، جعلی تعلیم یافتہ
ہجوم کے بجائے تربیت یافتہ علم دوست ،جدت پسند،اور تخلیقی صلاحیتوں سے
آراستہ نسل معاشرے کے حوالے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نظام تعلیم میں
انقلابی تبدیلیوں کی سخت ضرورت ہے جو طلبہ اور اساتذہ کو تعلیمی مزدوری سے
باز رکھے۔طویل تعلیمی اوقات کار کے بجائے موثر تدریس اور سود مند اکتساب کی
ملک و قوم کو ضرورت ہے۔تعلیمی پالیسیوں اور تدوین نصاب سے پہلے طلبہ اور
اساتذہ کے مسائل پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے۔ تعمیری مزدور کی طرح اساتذہ سے
اور طلبہ سے بندھوا مزدور کی طرح صبح 8.30 تا 5بجے شام تک کام لینے کا
طریقہ کار درس و تدریس اور اکتساب پر منفی اثرات مر تب کر رہا ہے۔نظام
تعلیم کے بارے میں اکثر و بیشتر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔تعلیمی مسائل
اور کارکردگی پر ماہرین سے لے کر عام آدمی ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے
سے نہیں چوکتا ۔کوئی ایک حل تجویز کرتا ہے تو دوسرا ایک اور حل ۔کسی کے
نزدیک تعلیم کے لئے مادری زبان اہم ہے تو کوئی انگریزی زبان میں تعلیم کا
موئید نظر آتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کرتا
کہ زبان کے علاوہ وہ کونسے دیگر عوامل ہیں جنھیں درست اور تبدیل کرنے کی
سخت ضرورت ہے۔ یہ فرق بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دیگرترقی یافتہ ممالک کے
تعلیمی نظام اور ہمارے تعلیمی نظام میں کیا فرق پایا جاتا ہے۔ زیر مطالعہ
مضمون میں اسی فرق کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین تعلیم اور
بالخصوص مسلمان ماہرین تعلیم و تعلیمی اداروں کے ذمہ دارن کے لئے لازمی ہے
کہ وہ دنیا کے تجربات کی روشنی میں اپنے ملک اور معاشرے کو تعلیمی بلندیاں
عطاکرے ۔مغرب کے نافع تعلیمی تجربوں سے مسلمان سرموئے انحراف نہ کریں کیوں
کہ اسلام نے مسلمانوں کے حصول علم کے لئے ایک روشن ضابطہ مقرر کیا ہے ’’
حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، یہ جہاں سے ملے اسے لے لینا چاہئے‘‘(ابن
ماجہ)۔یہ حدیث گواہی دیتی ہے کہ کوئی مفید جملہ، یا کام کی بات جو اسلام کے
خلاف نہ ہو،جو کبھی کسی نا اہل کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے، تو مومن کیلئے
مناسب نہیں کہ اس کام کی بات کو محض اس لئے رد کردے کہ یہ ایک ناکارہ کی
زبان سے نکلی ہے،بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ قیمتی اور مفید بات کو قبول کیا
جائے، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا بولنے والا کون ہے۔آج ساری دنیا ذ ہنی دباؤ
سے پاک تعلیمی نظام ) Most Stress Free Education System ( کی تلاش میں
اپنی بہتر توانیاں صرف کررہی ہیں۔ ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام موثر درس و
تدریس اور پر کیف اکتساب کی جان ہوتا ہے۔کرہ ارض پر موجود 169ممالک میں فن
لینڈ کا نظام تعلیم ذہنی دباؤ سے پاک اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے
کیحوالے سے سرفہرست ہے۔فن لینڈ شمالی یورپ کا ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہے۔ یہ
دنیا میں رقبے کے لحاظ سے 65اور آبادی کے لحاظ سے 114 ویں نمبر پر آتا
ہے۔اس ملک کی کل آبادی 55لاکھ ہے لیکن عالمی تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے
یہ چھوٹا سے ملک ساری دنیا میں پہلے مقام کا حامل ہے۔
فن لینڈ کے ماہرین تعلیم کے نزدیک بچوں کی ابتدائی عمر نہایت اہمیت کی حامل
ہے اورسات سال سے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو
نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔نفسیاتی اعتبار سے بھی بچوں کی عمر کا یہ دور
کھیل کود میں زیادہ صرف ہونا چاہئے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ
سکیں۔ فن لینڈ میں بچوں کی اسکولی تعلیم(اول جماعت) کا آغاز سات سال کی عمر
میں ہوتا ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان
نہیں لیا جاتا۔سات سال سے کم عمر بچوں کے لئے خصوصی ڈے کیئر اور پری اسکول
قائم ہیں جہاں بچوں کو مخصوص قسم کے کھیلوں کے ذریعے آرٹ،گفتگو(کمیونیکیشن)
اور فطرت سے محبت کی عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ڈیوڈ وائٹ(David White)
صدر شعبہ ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن سنٹر کیمرج یونیورسٹی کے مطابق بچوں کی عمر
کے ابتدائی سالوں میں کھیل کود کے ذریعے تعلیم سے اکتساب کے بہترین نتائج
دیکھنے میں آئیہیں۔نفسیاتی اعتبار سے بچوں میں ذہنی دباؤ سے پاک،مثبت ماحول
اور آزادانہ طریقے سے اکتساب کا عمل بغیر رکاوٹ کے پروان چڑھتا رہتا ہے۔ڈے
کیئر اسکولوں کا مقصد بچوں میں اپنی صحت ،دوسروں کا احترام اور جذبہ ذمہ
داری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔بچوں کی معاشرتی نشوونما پرخاص توجہ مرکوز کی
جاتی ہے۔بچوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے
کنڈر گارٹنس کا اصل مقصد بچو ں کو آنے والی زندگی کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے
نہ کہ نصابی تعلیم کے لئے تیار کرنا۔ فن لینڈ کے کسی بھی اسکول میں 195سے
زیادہ طلبہ نہیں پائے جاتے۔ تعلیمی ادارے صبح نو 9:00 اور پونے دس بجے کے
درمیان کھلتے ہیں اور دوپہر دو بجے اورپونے تین بجے کے درمیان بند ہوجاتے
ہیں۔اسکولی اوقات میں مختلف وجوہات اورو موسمی حالات کی مناسبت سے کبھی
تقدیم اور تاخیر بھی واقع ہوتے رہتی ہے۔19بچوں کے لئے ایک ٹیچر مقرر
کیاجاتا ہے۔ روزانہ70منٹ پر محیط ورکشاپ طرز کے تین اور زیادہ سے زیادہ چار
کلاسس ہوتی ہیں اور ہر کلاس کے درمیان20تا25منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔دوران وقفہ
بچوں کو صحت بخش غذائیں، دودھ اور پھل وغیرہ دیئے جاتے ہیں تاکہ ان میں
دماغی اور جسمانی توانائی بحال ہو۔وقفے کے دوران بچے خوب کھیل کودکے ذریعے
پھر سے ترو تازہ ہوجاتے ہیں۔بچے اپنے اسکول کے پورے وقت میں 75منٹس
وقفے(بریکس) میں گزارتے ہیں۔ ہفتے بھر میں اسکولوں میں صرف 20گھنٹے پڑھائی
ہوتی ہے اور اساتذہ روزانہ دو گھنٹے اپنی تدریسی مہارتوں (اسکلز)کو فروغ
دینے میں صرف کرتے ہیں۔ یہاں سالانہ ،میقاتی(ٹرمینل)،ماہانہ امتحان کا کوئی
تصور نہیں پایا جاتاشاید اسی وجہ سے فن لینڈ کے تعلیمی نظام کو دباؤ سے پاک
تعلیمی نظام(Most Stress Free Education System)ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ثانوی
سطح (میٹرک لیول) پر صرف ایک امتحان ہوتا ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم کی ایک
اور خوبی یہ ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کی جب کلاسس نہیں ہوتیں تب وہ حاضر ی سے
مستثنیٰ ہوتے ہیں۔مثلاً ہفتے کے کسی دن طلبہ یا اساتذہ کی دوپہر میں کوئی
جماعت نہ ہووہ اسکول سے جاسکتے ہیں یا پھر ہفتے کے کسی دن اگر ان کی جماعت
صبح گیارہ بجے شروع ہوتی ہو تو یہ اساتذہ اور طلبہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ
وقت سے پہلے اسکول میں حاضر رہیں۔ ثانوی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو
ہر جماعت کے بعد ایک پریڈ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔اس لچکدار تعلیمی نظام نے
جہاں طلبہ اور اساتذہ دونوں کو دباؤ سے نجات دی ہے وہیں تدریسی و اکتسابی
منصوبہ بندی کے لئے ہر دوکو وافر وقت بھی فراہم کیا ہے۔فن لینڈ نے تعلیم کو
آسان بنا کر پیش کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روشن مثال پیش کی ہے۔فن لینڈ
کے ارباب حل و عقد لائق ستائش ہیں کہ انھوں نے تعلیم کے معیار پر کوئی
سمجھوتا نہیں کیا۔ فن لینڈ کے ایک ریاضی کے استاد سے جب پوچھا گیا کہ وہ
بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو اس نے مسکراتے ہوئیکہا ’’میں بچوں کو خوش رہنا
اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو
بآسانی حل کرسکتے ہیں‘‘۔
اساتذہ کا انتخاب:۔فن لینڈ میں اساتذہ کے انتخاب میں غایت درجہ احتیاط سے
کام لیا جاتا ہے۔یہاں استاد معاشرے کا ایک قابل فخر فردہوتا ہے۔فن لینڈ میں
ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور شرف کی بات ہے۔ پورے
ملک کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ترین نمبروں سے ماسٹرز کئے افراد کو ایک خصوصی
امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد مامور کیا جاتا ہے۔ ہر سال درس و
تدریس سے منسلک ہونے کے آرزو مند ہزاروں افراد کی درخواستیں پیشہ تدریس کے
لئے اہلنہ ہونے کے سبب رد کردی جاتی ہیں۔ پرائمری جماعتوں کے اساتذہ کا
انتخاب بہت تحقیق،چھان پھٹک،متعدد انٹرویوز اور اسکریننگ ٹسٹس کے بعد عمل
میں آتا ہے۔پرائمری جماعتوں کی تدریسی کے لئے اساتذہ کے پاس پیشہ وارانہ
ڈگری کے ساتھ ماسٹر ڈگری کا ہونا لازمی شرط ہے۔اس کے علاوہ اساتذہ کا خوش
اخلاق ،صبر و تحمل کی بے پنا ہ قوت اور مطلوبہ تدریسی اوصاف و مزاج کا حامل
ہونالازمی ہے۔ پیشہ معلمی کے لئے لازمی طور پرپوسٹ گرائجویشن میں
مقالہ(تھسیز) لکھنا اور عمدہ تحریری صلاحیت کا پایاجانا بھی لازمی جزو ہے۔
فن لینڈ میں جہاں اساتذہ کے انتخاب کے لئے اتنے سخت شرائط عائد ہیں وہیں
پیشہ تدریس بھی بالکل دباؤ سے پاک ہے ۔اساتذہ کو سال بھر میں صرف 600چھ سو
گھنٹے ہی پڑھانیہوتے ہیں اور یومیہ طور پر ان کا تناسب زیادہ سے زیادہ چار
جماعتیں(چار پیریڈ) ہوتا ہے۔ یہاں کے اساتذہ کو شاندار تنخواہیں اور دیگر
مثالی مراعات بھی حاصل ہیں۔ جہاں طلبہ کے لئے ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام
یہاں رائج ہے وہیں اساتذہ پرکسی طرح کا کوئی ذہنی اور جسمانی دباؤ بھی نہیں
پایا جاتا۔
اب اپنی قوم کے اساتذہ پر بھی ایک نظر ڈالئے کہ جو لوگ قوم کے مستقبل کی
تعمیر پر باز مامور ہیں وہ کس قدر اہل ہیں۔ تعلیمات کا شعبہ روزگار فراہم
کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے لیکن اہلیت انتخاب اور جوابدہی کے تناظر میں
یہی شعبہ سب سے کمزور بھی ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم فراہم
کرنے والے اساتذہ اور منتظمین کی قابلیت کی اگر جانچ کی جائے تو مجھے یقین
ہے کہ کم از کم نصف تعداد اپنے مضمون پر عبور اور تدریسی اہلیت میں نااہل
ثابت ہوجائے گی۔ان حالات میں اگر بہترین نصاب مرتب کر دیا جائے ،تنخواہوں
اور دیگر مراعات میں بھی سو فیصد اضافہ کردیا جائے تب بھی کوئی واضح فرق
پیدا ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ہمیں ڈنڈا اور چھڑی لیکر طلبہ کے تعاقب میں
لگے اساتذہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جن کی
نگاہیں اور دل بچوں کی طرح تتلی اور مور کے رنگ اور پنکھ دیکھ کر مچل جاتے
ہیں۔غباروں کو اڑتا دیکھ کر جن کی خوشیوں اور مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں
رہتا۔استاد جب تک بچوں کی کیفیت ،جذبات اور نفسیات کاا درک حاصل نہیں کر
لیتا ہے تب تکسکھانا تودور ،پڑھانا اور بچوں سے قربت بھی حاصل نہیں کر سکتا
۔ (جاری ہے)
|