عدل اور انسان

ہر کام مناسب وقت پر کرنا بھی عدل کی ایک صورت ہے۔ ہر چیز کو موزوں مقام پر رکھنا بھی عدل کہلاتا ہے۔۔
رب کائنات نے نظام کائنات کو عدل کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ تمام سیارے اپنے محور کے گرد مقررہ رفتار کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ اگر ذرا بھی رد و بدل ہوجائے گا تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ نظام کائنات، آسمان سے لے کر زمین تک صرف اللہ کے عدل و انصاف کے بل بوتے پر قائم ہے۔
سورۃ العمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ’’ اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے، انصاف سے قائم ہوکر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں، عزت والا، حکمت والا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ’’عادل‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ہر معاملے میں عدل سے کام لیں۔ جس قسط و عدل سے زمین و آسمان قائم ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ’’ہم نے رسولوں کو صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیج کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘ (سورۃ الحدید)

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ انبیاء و رسلؑ تین چیزیں لے کر آئے۔

(1) کھلی نشانیاں (2) واضح ہدایات کتاب الٰہی (3) میزان یعنی وہ معیار حق و باطل جو ترازو کی طرح ٹھیک تول کی طرح بتادے کہ انصاف کی بات کیا ہے۔

عام فہم زبان میں اس آیت کے مفہوم کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبروںؑ کے بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔

سب سے بڑا عدل یہ ہے کہ انسان توحید پر قائم رہے۔ توحید ہی سے عدل قائم ہوسکتا ہے اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ دنیا کی ساری خرابیاں شرک ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (سورۃ القمان)
حضور اکرمؐ ایک ایسی کامل شریعت لے کر آئے جو عدل و احسان اور قانون و اخلاق دونوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف، قانون اور اخلاق دونوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں کا منشاء ایک ہی ہے۔ قانون، برائیوں کو روک تو دیتا ہے مگر دل میں اس برائی کی طرف سے نفرت کا اظہار اور روحانی کیفیت پیدا نہیں کرتا جو اخلاقیات کی جان ہے۔ اسلام ایک ایسا عادلانہ نظام پیش کرتا ہے کہ جن برائیوں کے خاتمے سے ایک پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور جس کا اثر دوسروں پر براہ راست ہوتا ہے، اسے قانون کے ماتحت کردیا۔ مثلاً قتل، چوری، راہ زنی، زنا اور تہمت لگانا وغیرہ ان جرائم کے لیے قرآن نے سزا بھی مقرر کردی جو ریاست کی طرف سے دی جاسکتی ہے۔ حکومتی انتظامات کے قیام کے لیے سختی کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص سزا کے اجرا کے وقت حکم ہوتا ہے۔

’’اور تم کو اللہ کا حکم صادر کرنے میں ان دو گنہگاروں پر ترس نہ آئے۔ اگر تم کو خدا پر اور قیامت پر ایمان ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو دونوں کی سزا کے وقت حاضر رہنا چاہیے۔‘‘ (سورۂ نور)

یعنی قیامت کے دن اس گناہ کی سزا اور سخت ہے، اس لیے نرمی نہ کی جائے اور جماعت کو حاضر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو، تاکہ وہ جرم سے باز رہیں۔ عدل و انصاف ایک اچھی حکومت و سلطنت کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ایک بااختیار عدلیہ ہو، جو مظلوم کی داد رسی کرے اور عدل و انصاف کے مطابق بلا تفریق قبیلہ، خاندان، سیاسی وابستگی فیصلہ کرے اور معاشرے کے تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ انصاف سے فیصلہ کرنے والوں کو اپنی دوستی اور محبت سے نوازنے کی بشارت سناتا ہے۔۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ’’ اے ایمان والو، انصاف پر قایم ہوجاؤ، اللہ کے لیے گواہی دیتے جاؤ، اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو، یا ماں باپ کا، یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو، وہ غنی ہو یا فقیر۔‘‘ (سورۃ النسا )

ایک بار خاندانِ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون چوری کے الزام میں پکڑی گئی۔ اس کا قبیلہ چاہتا تھا کہ اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ملے۔ انہوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو حضورؐ کی خدمت میں سفارشی بناکر بھیجا کہ سزا میں کچھ نرمی فرمائی جائے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ’’پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بااثر آدمی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کی خاطر قانون کی تاویلیں کرکے اسے بچالیا جاتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ کی قسم اس کی جگہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹتا۔‘‘

ہمیں اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ معاشرے کے تمام افراد میں قانونی مساوات قائم ہونی چاہیے اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ قول صادق ہے کہ ’’جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں۔‘‘

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ ظلم کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں رہتی لیکن کفر کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔‘‘

آج کل بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، اغواء برائے تاوان، راہ زنی، چائلڈ لیبر اور ان کے ساتھ بے رحمانہ رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجرموں کی پکڑ نہیں ہے۔ بااثر لوگ اپنے تمام اثر و رسوخ بروئے کار لانے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے عدل و انصاف قائم کرنے کی دوہری ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ (آمین)

Ramsha
About the Author: Ramsha Read More Articles by Ramsha: 5 Articles with 6126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.