کراچی کی سڑکیں اور پروفیشنل بھکاری

اللہ کے واسطے مدد کردو
پورے دن کابھوکا ہوں صاحب!
کئی بار راہ چلتے کھاتے پیتے کراچی کی سڑکوں اور ریسٹورینٹس پر آپ نے سنا ہی ہوگا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو قدرت نے ہاتھ پاؤں کی نعمت اور بھرپور جسمانی قوت سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود دوسروں کے آگے سوال کرنا، ہاتھ پھیلانا ان کی پہچان اور پیشہ بن چکا ہے اور اسی شناخت کے پیش نظر ہم بھی انہیں گداگر کے نام سے جانتے ہیں۔

اللہ کے واسطے مدد کردو
پورے دن کابھوکا ہوں صاحب!
کئی بار راہ چلتے کھاتے پیتے کراچی کی سڑکوں اور ریسٹورینٹس پر آپ نے سنا ہی ہوگا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو قدرت نے ہاتھ پاؤں کی نعمت اور بھرپور جسمانی قوت سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود دوسروں کے آگے سوال کرنا، ہاتھ پھیلانا ان کی پہچان اور پیشہ بن چکا ہے اور اسی شناخت کے پیش نظر ہم بھی انہیں گداگر کے نام سے جانتے ہیں۔

قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات اور احسن سیرت وعادات پر پیدا کیا،اس کی فطرت میں حیاء اور خودداری کا جذبہ رکھا اس کے برعکس آج وہ اپنی ان خوبیوں کو پیچھے چھوڑ کر ذلت وحقارت کے راستے پر آن پہنچا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بے روزگاری ،غربت اور علم سے دوری نے آج اس اشرف امتیاز انسان کو منگتا بنا دیا ہے۔ہمارے ملک میں گداگری اب ایک پیشہ بن گیا ہے، جس میں زیادہ تعداد ہماری نوجوان نسل کی ہے۔ کہیں بھی نظر ڈورائیں،ہر گلی کے کونے میں ،ہرچوراہے یا ہر اڈے پر، ہرسگنل پر چند ایک نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں بھکاری نظر آتے ہیں، دن بہ دن پیشہ ور فقیر بننے کی لعنت عام ہوتی جا رہی ہے کسی بھی مقام سے گزر ہو تو وہاں مؤدب انداز میں سلام کہہ کر ہاتھ پھیلایا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو اس طرح لاچار ثابت کرتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ نہ بھی ہو پھر بھی مجبور ہو کردس روپے دے دیتے ہیں۔ اب تو یہ لعنت ہماری عبادت گاہوں تک آن پہنچی ہے اگر آپ نماز پڑھنے جائیں تو وہاں بھی لازمی ہر مسجد کے باہر آپ کو کوئی نہ کوئی سوال کرتا دیکھائی ضرور دے گا۔ بھکاریوں کے اب صرف یہی رنگ نہیں رہے اب تو ان کی مافیا بن گئی ہے جو کہ بچوں کو اغوا کرکے ان پھولوں کی شکل کو ایسے تبدیل کردیتے ہیں کہ ان کے والدین انہیں پہچان نہ سکیں اور پھر اعضاء توڑ کرگلیوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں بعض گداگر ایسے ہیں جوکہ خود اغوا نہیں نہیں کرتے بلکہ اغوا کرنے والوں کی مدد کرکے بچوں کو بیرون ملک بھیج کر رقم وصول کرتے ہیں۔ کراچی میں بڑھتے ہوئے گداگری کے کاروبار نے اپنے ساتھ مختلف جرائم کو بھی جنم دیا ہے جس میں چوری ،جسم فروشی ،جوا، جاسوسی وغیرہ شامل ہیں ایسی برائیاں کسی بھی معاشرے کو زوال کی طرف لے جاتی ہیں۔پیشہ ور فقیر بہ آسانی اپنا بھیس بدل کر جرائم پیشہ عناصر کی مدد کرتے ہیں متفرق حلیہ اختیار کرکے لوگوں کی نظروں سے بچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہیں اکثر معذور سمجھ کر توجہ نہیں دی جاتی، وہ کسی بھی گھر میں بھیک مانگنے کے لیے داخل ہو کر یہاں وہاں نظریں دوڑا کر چوروں کو مال ودولت کے بارے میں خبر رسائی کرتے ہیں ۔قدرت نے انسان کو ایسی لیاقت عطا کی ہے کہ وہ آج چاند پر پہنچ چکا ہے، پہاڑوں کے سینے چیر کر چیزیں دریافت کرتا ہے جو سمندر کی تہوں میں جاکر آبی جانوروں کی زندگی پر کھوج کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ یہ انسان جس کو قدرت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے خود کی اہلیت ختم کر کے اپنے آپ کو اپاہج کر رہی ہے صرف اس لیے کہ محنت نہ کرنی پڑے۔گداگری کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے اسکولوں میں خودی کو بلند کرنے کے اسباق پڑھائے جائیں۔ خودی کے پیغام کو عام کیا جائے نوجوانوں میں خودداری پیدا کرنے کے لیے منزل سے روشناس کروایا جائے ۔ اگر ہم اس راستے کو اپنائیں گے تو ایک دن ضرور آئے گا کہ کوئی بھیک مانگنے والا دور دور تک دیکھائی نہیں دے گا۔

HASSAN MUHAMMAD TARAR
About the Author: HASSAN MUHAMMAD TARAR Read More Articles by HASSAN MUHAMMAD TARAR: 3 Articles with 2066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.