صحبت ھی دراصل اصل زندگی ھے اور صحبت ھی انسان کی زندگی
کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے ۔ھاں جی صحبت کا تعلق سب سے پہلے گھر کے
زمرے میں آتا ھے کہ آیا گھر والوں نے اپنے بچوں کی تربیت کیسے کی ہے؟؟؟
کیوںکہ گھر وہ بہتریں درس گاہ ھے جہاں پر بنا کسئ غرص کے ماں باپ اپنی
اولاد کواچھی تربیت دینا چاھتے ھے ۔لیکن اس کے بھی دو پہلوں رہنماں ہوتے ہے
کہ گھر کا ماحول کیسا ہے ؟َ ماں باپ کا آپس کا رشتہ کیسا ہے ؟ ماں باپ کے
درمیان کا تعلق کیسا ہے کیونکہ اکژ اوقات گھر کے تعلقات بھی انسان کو غلط
صحبت اختیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہے -
صحبت سے انسان بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی۔ مشہور مقولہ ہے کہ کوئلہ بیچنے
والے کی صحبت کالک اور دھبے تحفے میں دیتی ہے جبکہ عطر فروش کی دوستی وجود
کو معطر کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص میں اٹھنا بیٹھنا شروع کردے تو
اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ان جیسا ہی ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی
نمازی لوگوں کی دوستی اختیار کرلے تو امید ہے کہ وہ بھی نماز کی جانب مائل
ہوجائے گا۔پہلے صحبت کا مطلب لوگوں سے بالمشافہ ملاقات سمجھی جاتی تھی۔
لیکن آج کل کے دور میں صحبت کے معنی بدل گئے ہیں۔ اب یہ میل جول ای میل،
چیٹنگ، فیس بک، ٹوئیٹر، اسکائپ اور دیگر ٹولز کے ذریعے انٹرنیٹ پر کیا جاتا
ہے۔ اسی طرح موبائل پر بات چیت، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس اور دیگر ذرائع
بھی صوتی ملاقات کے ذرائع ہیں۔
ان کے علاوہ ایک اور طرح کی صحبت ہے جو یک طرفہ کہلائی جاسکتی ہے۔ اس میں
ٹی وی پروگرامز، ایف ایم ریڈیو، موویز، ویب سائیٹس ، بلاگز، اخبارات و
رسائل وغیرہ شامل ہیں۔ آج لوگ ان کی صحبت میں اپنے وقت کا بڑا حصہ صَرف
کرتے ہیں۔
صحبت خواہ وہ بالمشافہ ہو یا کسی اور ذریعے سے، ہر صورت میں اس کا اثر
شخصیت پر پڑتا ہے۔ صحبت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے اسے براہ راست
موضوع بنایا اور ہدایت کی کہ راست باز، نیک اور صالح صحبت اختیار کی جائے۔
جیسا کہ اس آیت میں بیا ن ہوتا ہے: اے اہل ایمان !اللہ سے ڈرتے رہو اور
راستبازوں کے ساتھ رہو۔ (التوبہ :9)
دوسری جانب جو لوگ خود کو بری صحبت سے نہیں بچا پاتے اس کا بھی ایک تمثیلی
نقشہ قرآن نے کچھ اس طرح کھینچا ہے: (جنت میں) یہ لوگ بھی ایک دوسرے کی طرف
متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔ ان میں سے ایک (جنتی)کہے گا: ’’(دنیا میں) میرا
ایک ہم نشین تھا۔ جو مجھے کہا کرتا تھا: ’’کیا تم بھی ایمان لانے والوں میں
شامل ہوگئے ہو؟ بھلا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہمیں
سزا و جزا بھگتنا پڑے گی؟‘‘
پھر وہ (جنتی دوسرے جنتی سے) کہے گا: ’’کیا تم اس (ورغلانے والے) کا حال
معلوم کرنا چاہتے ہو؟‘‘ پھر جب وہ (جنتی اس کا حال معلوم کرنے کے لیے جہنم
میں) جھانکے گا تو اسے جہنم کے عین درمیان دیکھے گا۔
پھر (وہ جنتی ) کہہ اٹھے گا: ’’اللہ کی قسم! تم مجھے ہلاک کرکے ہی چھوڑتے۔
اور اگر مجھ پر میرے اللہ کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی (مجرموں کی طرح جہنم
میں) حاضر کیے ہوئے لوگوں میں شامل ہوتا۔‘‘ (الصافات 50-57)
ان آیات میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا کہ بری صحبت کا انجام جہنم کا گڑھا
بھی ہوسکتا ہے۔ اچھی اور بری صحبت کے فرق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے بہت اچھی مثال سے سمجھایا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال
ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہاروں کی بھٹی تو مشک والے کے پاس سے تم بغیر
فائدے کے واپس نہ ہوگے یا تو اسے خریدو گے یا اس کی بو پاؤ گے اور لوہار کی
بھٹی تیرے جسم کو یا تو تمہارے کپڑے کو جلادے گی یا تم اس کی بدبو سونگھو
گے۔ (بخاری)ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کس قسم کی صحبت میں اپنا وقت
گذارتے ہیں۔ اگر یہ وقت ٹی وی کے بداخلاق پروگرامز، دنیا پرستی پر مبنی
فلمیں، ویب سائٹس، گندے لطیفوں پر مبنی ایس ایم ایس، تحقیر آمیز مذاق پر
مبنی ای میلز ، فیس بک کی لایعنی پوسٹس اور دنیا پرستی کی ہوا دینے والے
رسالوں کے ساتھ گذرتا ہے تو اس بری صحبت کا نتیجہ آلودہ شخصیت کا حصول ہے۔
دوسری جانب ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چایے جو لوگ نہ صرف دنیا کی
کامیابی کےلیے آپ کی مدد کریں بلکہ آخرت کی تیاری میں بھی آپ کی اصلاح کریں
تو اس اچھی صحبت کا نتیجہ ایک پاکیزہ شخصیت ہے۔ ناپاک شخصیات کا ٹھکانہ
جہنم کی آگ اور پاکیزہ نفوس کا مقام جنت کے باغات ہیں۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ
میں ہے کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔ |