دور حاضر میں ہر کوئی اس بات کا شکوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے
کہ دکھ بہت ہیں، میں بہت غمگین ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے متعلق ایک بزرگ نے
کیا خوب کہا تھا۔
اٹھ فریدا چڑھ کوٹھے تے
ویکھ گھر گھر لگی اگ
تو کی سمجھیں میں ہی دکھی
ایتھے دکھی سارا جگ
یعنی ہر کوئی سمجھتا ہے میرے جتنا دکھی اور تکالیف برداشت کرنے والا کوئی
نہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ہر شخص کو مصایب و الائم کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ اب آتے ہیں اسباب کی طرف، تو قارئین! ہمارے افسردہ ہونے کی ایک
بہت بڑی وجہ امید ہے۔ اب یہ امید وہ امید نہیں ہے جس کا درس اقبال نے دیا
تھا بلکہ وہ امید ہے جو ہم اپنے اردگرد بسنے والے چند اشخاص سے وابستہ کر
لیتے ہیں۔ یہ ہم سوچ سمجھ کر دانستہ طور پر ہر گز نہیں لگاتے بلکہ یہ
نادانستہ طور پر ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا سطور کو سمجھانے کے لیے ایک آسان سی مثال یہ ہے کہ آپ کسے آشنا
شخص کو دور سے آتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آپ لاشعوری طور پر یہ امید بسا لیتے ہیں
کہ یہ مجھے بڑی گرمجوشی سے ملے گا۔ لیکن ماجرا اس کے برعکس ہو جاتا ہے وہ
شخص سرد مہری دکھاتا ہے۔ نتیجتاً آپ کو فوراً افسردگی کا احساس ہوتا ہے۔
قارئین! اگر آپ کو افسردگی سے چھٹکارا پانا ہے اور خوش و خرم کھلکھلاتے
ہوئے زندگی بسر کرنی ہے تو اپنی امیدوں کو نادانستہ نہ ہونے دیں بلکہ انہیں
دانستہ رکھیں یعنی یہ کام آپ کا شعور کرے لاشعور کو اس کی اجازت نہ ہو۔ گر
آپ دنیا کے باقی سارے کام اپنی عقل یعنی شعور کے بل بوتے پہ کرتے ہیں تو
امید کیوں لاشعور سے۔ اپنے بیشتر کاموں کو امیدوں پہ نہیں بلکہ وقت پہ چھوڑ
دیں اپنے جذبات کو وقت کے مطابق ڈھالنا سیکھیں۔ یہی سمجھداری ہے۔ |