نشہ جسے ہمیشہ سے ایک لعنت سمجھا جاتا ہے لیکن اسکے
باوجود آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ہر گزرتے دن کیساتھ نوجوانوں میں اسکا
استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً دو ملین افراد غیر
قانونی ڈرگز دنیا بھر میں استعمال کرتے ہیں۔
ڈرگز ایڈکشن تقریباً ہر معاشرے کا مسلہ ہے۔یورپین ممالک میں ہر سال سینکڑوں
افراد ڈرگز کی زیادتی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور ایشين ممالک جن
میں پاکستان ٗ مالدیپ اور بنگلہ دیش اور دیگر ممالک شامل ہیں ان تمام ممالک
میں بھی ڈرگز کے استعمال کی کوٸی حدود مقرر نہیں ہے۔یوناٸیٹڈ نیشن کی ٢٠٠٨
کی رپورٹ کے مطابق 44 ٹن ہیروٸن پاکستان میں استعمال ہوتی ہے جو کہ ساوتھ
ایشیا کے دوسرے ممالک سے کٸی گنا زیادہ ہے جن میں %78 تعداد مردوں کی اور
%22 تعداد خواتين کی ہے۔(ANF)کی جولاٸی 2015 کی رپورٹ کے مطابق ڈرگز کی
زیادتی کی وجہ سے روزانہ پاکستان میں 700 افراد انتقال کر جاتے ہیں۔پاکستان
میں تقریباً 8 لاکھ افراد جن کی عمریں پندرہ سے چونسٹھ سال کے درميان ہیں
روزانہ کی بنیاد پر ہیروٸن استعمال کرتے ہیں۔۔
نشہ آور چیزوں کا استعمال مقبول ہونے کی کٸی وجوہات ہیں جن پر اگر قابو
نہیں پایا جاٸے گا تو وہ نوجوان جو ہماری قوم کا مستقبل ہیں نشے کی اس دلدل
میں دھنستے چلے جاٸیں گیں۔نوجوانوں میں نشے کے استعمال کی بنیادی وجہ
ڈپریشن ہے جو کہ کہنے میں تو ایک معمولی سا مرض ہے لیکن اگر بر وقت اس پر
قابو نہ پایا جاٸے تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔اکثر اوقات یہ دیکهنے
میں آیا ہے کہ ٹین ایجرز کو انکی جسمانی ساخت کی وجہ سے فیملی یا دوستوں کی
جانب سے تنقيد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا انکی کسی بھی کمزوری کو لیکر اس
حد تک تضحیک کی جاتی ہے کہ وہ الکحل اور کوکین کے استعمال کے ذریعے ذہنی
سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن
جیسے جیسے وہ ان نشہ آور چیزوں کے استعمال کے عادی ہوتے جاتے ہیں انکا وجود
اندر سے بالکل کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے۔اور پھر نہ ان میں کچھ سوچنے کی
صلاحيت باقی رہتی ہے اور نہ ہی وہ صحیح اور غلط کی تمیز کر پاتے ہیں۔اکثر
نوجوان اپنے والدین رشتہ داروں اور دوستوں سے متاثر ہو کر نشہ آور چیزوں کا
استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ہاٸی کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد ڈرگز کے بغير
خود کو معاشرے میں مس فٹ محسوس کرتے ہیں جسکی بنیادی وجہ میڈیا ہے جہاں پر
بیشتر گانوں اور فلموں میں ڈرگز کے استعمال کو ہاٸی کلاس کی علامت کے طورپر
پیش کیا جا تا ہے۔بعض نوجوان صرف تجربہ کرنے کی غرض سے ان چیزوں کا استعمال
شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ اس(curiosity) کا شکار ہوتے ہیں کہ آخر وہ کیا
احساسات ہیں جو ان نشہ آور چیزوں کو استعمال کرنے کے بعد انسان میں پیدا
ہوتے ہیں لیکن یہی تجربہ انکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن جا تا ہے وہ اس
براٸی میں اس حد تک ملوث ہو جاتے ہیں کہ انکے پاس واپسی کا کوٸی راستہ نہیں
رہتا۔
ہمیں ابتدا سے ہی اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیٸے کہ وہ نشے
جیسی علّت کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کریں چاہے وہ تجربے کی حد تک ہی
کیوں نہ ہو کیونکہ برائی چھوٹی ہو یا بڑی اسکا نتیجہ تباہی کی صورت میں ہی
نکلتا ہے۔والدین کو اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی نشے اور اسکے تباہ کن اثرات
سے بچوں کو آگاہ کر دینا چاہیٸے تاکہ اگر کوٸی انھیں اسکول یا کالج میں اس
جانب راغب کرنے کی کوشش کرے تو وہ اس جانب توجہ نہ دیں۔تعلیمی اداروں میں
بھی نوجوانوں کیلییے اس حوالے سے لیکچرز کا انعقاد کیا جانا چاہیٸے خصوصاً
میڈیا کے ذریعے اس موضوع کو ہاٸی لاٸٹ کیا جانا چاہیٸے۔ٹی وی اور سوشل
میڈیا پر بھی باقاعدگی سے اس موضوع پر پروگرام نشر ہونے چاہیٸیں تاکہ لوگوں
میں اس حوالے سے آگاہی پیدا ہو۔ |