پرانےزمانے میں تعلیم اور معلومات کو عام کرنے کا ایک
واحد ذریعہ کتابیں اور معلم تھے مگر جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا ویسے
ویسے معلومات کی فراہمی کے نئے نئے ذرائع منظر عام پر آتے گئے۔ان میں سے
ایک اہم ذریعہ ٹیلی ویژن ہے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی1964میں ٹیلی
ویژن کا ابتداء کیا گیا اپنے قیام کے ایک لمبے عرصے تک پاکستان ٹیلی ویژن
جسے ہم پی ٹی وی کے نام سے جانتے ہیں نے بہت معیاری پروگرام پیش کئے جن کی
شہرت سرحد پار تک بھی پہنچی ان ڈراموں کا مقابلہ بالی وڈ کی فلموں سے کیا
گیا اور آج بھی اس زمانے کے ڈراموں کے ذریعےاداکاری سیکھائی جاتی ہے جہاں
تک ان ڈراموں کے موضوعات کاتعلق ہے تو ایسے موضوعات کا انتخاب کیا گیاجس کا
تعلق ہمارے سماجی مسائل سےتھالیکن ان موضوعات کو اس طریقےسے ٹیلی ویژن کی
اسکرین پر پیش کیا گیا کہ انہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کے دیکھا جا سکتا
تھامثلاًوارث، آنچ، عروسہ، ہاف پلیٹ وغیرہ وغیرہ لیکن سیٹ لائٹ چینلز کی
آمدکے ساتھ ہی لوگوں کے رجحانات تبدیل ہوناشروع ہوگئےاور لوگ غیر ملکی
چینلزکی طرف راغب ہونے لگے۔اس رجحان کو دیکھ کرپاکستان میں کئی نئے ٹی۔وی
چینلز کا افتتاح کیاگیاابتداءمیں تو معیار کا خاصا خیال رکھا گیالیکن بھر
ریٹنگ کی وجہ سےان ڈراموں کا معیار گرتا چلا گیا۔انڈین ڈراموں کی نقالی میں
جو کہ تصور والی زندگی سے مالا مال ہے مگر ان میں گلیمر کی موجودگی کی وجہ
سےان کی گونج ہر پاکستانی گھر میں سنی جانے لگی ۔اس فضاء میں پاکستان میں
بھی ایسے ڈرامے پیش کیئے جانے لگے۔جن میں پر تعیش گھروں کا دیکھایا جانا،
لڑکے لڑکی دوستی،دوسری شادی کا بڑھتاہوا رجحان،جادوٹونےپرمشتمل ڈرامے، عشق
ومحبت پر مشتمل ڈرامےپیش کیئے جانے لگے۔جو ہماری نوجوان نسل کے اندرمایوسی
اور بے راہ روی کا سبب بننے لگی کیونکہ ان ڈراموں میں امیر طبقے کی طرز
زندگی کو بھر پور طریقے سے پیش کئے جانے لگا ہےجو غریب طبقے میں مایو سی
پھیلانےکا سبب بن رہا ہے۔دوسر ی طرف جن سو شل موضوعات پر ڈرامے بنائے جارہے
ہیں ان کو بنانےکا انداز بہت بے جان ہے۔جو معاشرے میں سدھار کے بجائےبگاڑ
کا سبب بن رہا ہے۔آج کل کے ڈراموں میں کچھ ایسےموضوعات پر بھی ڈرامے بنائے
جا رہےہیں جن کا کچھ سالوں پہلے تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے۔مثلاًمیری
گڑیا، اوڈاری یوں تو ان ڈراموں کو لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے بنایا
جارہا ہے۔مگراس سے اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہی ہورہاہے کمی نہیں۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ ان ڈراموں کو اس طرح بنایا جائے جس سے لوگوں کو عبرت ہو اور
وہ اس طرح کے جرائم کرنے سے پہلےسو دفعہ سوچیں۔ دوسری طرف مغربی معاشرےکی
نقالی میں ہم نے مشرقی لباس کا استعمال بالکل ترک کردیا ہے ۔دوپٹہ جو
پاکستانی ڈراموں کی پہچان تھا۔آج کی اداکار ائیں اس سےمبرا ہیں اوراس کا
پاکستان کا ایک غلط تاثردنیا پر پڑرہاہے ہم نے اس ملک کو اسلام کے نام پر
حاصل کیا تھا۔جس کا مقصد معاشرے میں اسلامی نفاذتھا مگر اس صورتحال میں
ایسا ہونا ممکن نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح انڈیا کا میڈیااپنے مذہب
کی ترویج کے لئے ٹی وی کو استعمال کر رہا ہے ہم بھی ٹی وی کے ذریعے اپنے
مذہب کی ترویج کریں تاکہ ہماری نوجوان نسل درست معنوں میں وہ پاکستانی بن
سکیں جس کی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں ہے۔
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤگے
|