ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل

عورتوں کے حقوق پر ویسے تو بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے لیکن ملازمت کرنے والی خواتین کو عام گھرداری کرنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ایک خاتون کا گھرسے نکل کر آفس پہنچنے تک ایک ایک لمحہ اذیت ناک ہوتا ہے اکیسویں صدی میں زندہ رہنے والی یہ قوم آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ ہر وہ لڑکی یا عورت جو گھر سے نکال کر اپنا اور اپنے گھر کا بوجھ اٹھاتی ہے تو سمجھا یہ جاتا ہے کہ ایسی لڑکی یا عورت کردار کی کمزور ہے حوس بھاری نظروں کا سامنا کرنے کے بعد دفتر اور دیگر کام کرنے کی جگہوں پر خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ عام طور پر یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ کئی چھوٹی بڑی صنعتوں میں خواتین کی تعداد مرد حضرات سے زیادہ ہے تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ خواتین کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے رضامند ہو جاتی ہیں جبکہ خواتین کے کئے گئے کام میں سلیقہ اور صفائی بھی نظر آتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میڈیکلی تحقیق کی بنیاد پر مرد و زن کو تقسیم نہ کیا جائے اس طرح صنفِ نازک کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے ۔حکومت وقت اور ریاستی ادارے اس آمر کو یقینی بنائیں کہ خواتین کے استحقاق مجروح نہ ہو ۔ انسانوں میں یہ تفریق اس ہی طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جس نے غریب کو غریب تر بنادیا ہے اور غریب کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے اس کے علاوہ اگرچہ یہ عمل خوش آئند ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے خواتین کو حراساں کرنے پر قانون سازی کی ہے مگر اس قانون سازی سے خاص فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ جب تک سوچ تبدیل نہیں ہوگی کیسی بھی قانون سے وہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے جس کے تحت قانون بنایا گیا ہے ۔ راہ چلتے کئ مرتبہ ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسان کیسی کو بتانے سے بھی گریزاں ہوتا ہے اور اس موقع پر نہ تو کوئی شکایت درج ہوسکتی ہے نہ ہی بعد میں ان افراد کا پتہ چلتا ہے۔

میں نئی آنے والی حکومت سے توقع کرتی ہوں کہ نہ صرف ملازمت کرنے والی خواتین بلکہ کالج یونیورسٹی جانے والی لڑکیوں کو بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گئی باعزت سفر آج کے دور میں ہمارے معاشرے کے اندر خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے اس لیے باقاعدہ صبح اور شام کے اوقات میں مخصوص بسسز چلائی جائے ۔ جن میں خواتین کی ہی نشیتں ہوں ۔ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا مادی اعتبار سے بہت ترقی کرچکی ہے مگر ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں 50 برس قبل تھے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرے کے دونوں طبقوں کا مل کر باہم محنت نہ کرنا اور جنس کی بنیاد پر عورت کو کم تر سمجھنا ہے ۔ میں مرد کی عظمت کی قائل ہوں مگر عورت چاہے وہ کسی روپ کسی طبقے اور شعبہ زندگی سے وابستہ ہو عزت کے قابل ہے اسی طریقہ سے ایک اور پہلو ملزم پیشہ خواتین کے مسائل کا یہ بھی ہے کہ جو لڑکی ملازمت کرتی ہو اس کے رشتے کا مسئلہ بھی دیکھا گیا ہے۔ اور عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتی ہیں جس کی وجہ بطور انسان میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کہاں جارہا ہے مذہب اخلاقیات تمام حدیں پار کرتے ہوئے ہماری اجتماعی سوچ آخری درجے پر جا پہنچی ہے۔ ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا ایک محنت من معاشرے کے لیے لڑکی کا پڑھنا ضروری ہے اور اگر ضرورت ہو تو ملازمت کرنا بھی ضروری ہے محتاجی سے بچنے کے لیے ہمارا مذہب بھی عورت کو ملازمت اختیار کرنے سے نہیں روکتا ۔ سماج کے اس طرح کے مسائل پر عوام میں آگاہی کے لئے حکومت بھی میدان میں آئے اور لوگوں کی ذہن سازی کی جائے ورنہ انتہائی پسندی کا عفریت معاشرے کو تباہ کردے گا۔

Ammara Irfan
About the Author: Ammara Irfan Read More Articles by Ammara Irfan: 7 Articles with 4987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.