تحریر: فخر الدین پشاوری
’’بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں‘‘۔زندگی کا حق ہے کہ اسے
تقسیم کرو اور جو تقسیم کرو گے اس کی تمہارے ساتھ فراوانی ہوگی۔ چاہے وہ
دولت ہو، علم ہو، محبت ہو، آسانیاں ہوں یا خدانخواستہ کسی کو دی ہوئی
پریشانیاں۔ اسے جتنا تقسیم کرو گے اتنا اضافہ ہو گا۔ لوگوں کے لیے آسانیاں
پیدا کرو گے تو خدا آپ کی زندگی آسان فرما دے گا۔مال تقسیم کرو گے تو اﷲ
تعالی آپ کے لیے غیبی خزانوں سے مال عطا فرمائے گا۔ دوسروں کی مدد کیا کرو
اﷲ تمہاری مدد کرے گا۔ دوسروں کو سکون دو اﷲ تمہیں سکون دے گا۔ جو چیز لینا
چاہتے ہو وہ دوسروں کو دینا شروع کر دو۔
انسان کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنا چاہیے لیکن بغیر کسی غرض کے کیونکہ جو
بدلہ آپ کو اﷲ کے ہاں ملے گا وہ دنیا میں کوئی نہیں دے سکتا۔ایک دفعہ مدینہ
منورہ میں قحط پڑگیا۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیاتھا اور زمین نے اناج
اگانے سے انکار کردیاتھا۔ اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی
لوگ دانے دانے کے لیے محتاج ہو گئے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ بہت بڑے
تاجر تھے۔ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔اس دوران ان کا ایک
تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے۔ کھانے پینے کی
اشیا کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچا تو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی۔ بچے
بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی
ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا۔
اس وفد نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا
چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور
لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرکے بہت سارا نفع کمائیں۔ حضرت عثمان رضی اﷲ
عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا کہ
ہم آپ کو دوگنا نفع دیں گے۔ یعنی ایک دینار کا مال دو دینار میں خریدیں گے۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا۔ پھر بھی
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا
ہے۔ انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے یہی
کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔
یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان رضی اﷲ عنہ ہم اہل
مدینہ کو خوب جانتے ہیں ،یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے
زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا
ہے؟حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے جواب دیام’’ اﷲ ‘‘۔جو نفع تم مجھے دے رہے ہو ،میرے
رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان
رضی اﷲ عنہ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورتمندوں
کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے سامنے اس وقت قرآن کی
یہ آیت تھی،’’جو لوگ اپنا مال اﷲ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی
مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر
بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے،وہ
فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘۔(البقرہ261)
آج کل لوگ ایک دوسرے کی مدد اس لیے نہیں کرتے کیونکہ انھیں اپنے اچھا کا
بدلہ نہیں ملتا لیکن ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں جس کی بھی مدد
کرنی ہے بغیر کسی غرض کے کرے اور اس کی امید صرف ایک اﷲ سے رکھیں کیونکہ جو
کچھ ہمیں اﷲ دے سکتا ہے وہ اس دنیا میں کوئی نہیں دے سکتا۔ سورۃ البقرہ میں
اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ ’’جو لوگ اپنے مال اﷲ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں،
پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہے اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں وہ
اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، نہ ان کو کوئی خوف لاحق ہو گا
اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔ بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے
بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائی اور اﷲ بڑا بے نیاز، بڑا برد
بار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سائل کسی سے مانگے اور وہ کس وجہ سے دے نہ
سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کر لینا اور اگر وہ مانگنے پر ناروا
اصرار کرے تو اس کی غلطی سے درگزر کرنا۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو
دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کر کے تکلیف پہنچائے۔
|