محترم قارئین کرام آپ نے اکثر
یہ جُملہ کتابوں پر لکھا ضرور دِیکھا ہُوگا کہ اس کتاب کے جُملہ حُقوق
مِحفوظ ہیں لہٰذا اس کے کسی بھی حِصے کی نقل ناقابل مُعافی جُرم ہے لیکن اس
انتباہ کے باوجود بھی لوگ بڑے دھڑلے سے نقل بھی کرتے ہیں اور صِرف نقل ہی
نہیں کرتے بلکہ بڑی بے باکی کیساتھ اُس تحریر کو بڑی بےشرمی سے اپنی تحریر
کہتے بھی نہیں شرماتے۔
انٹرنیٹ کی دُنیا میں بھی کاپی پیسٹ کا عذاب اکثر کالم نویسوں پر آسمانی
بِجلی کی طرح اثر انداز ہوتا ہے اور بقولِ شاعر ایسی تحریریں پڑھتے ہُوئے
ایک شعر اکثر ہماری زُبان پر جاری ہُوجاتا ہے کہ،، میں خیال ہُوں کِسی اور
کا مجھے چھاپتا کوئی اور ہے۔
مجھے بھی کئی مرتبہ دوستوں کے ذریعہ ایسی اطلاع موصول ہوتی رہیں جِس میں نہ
صِرف میری تحریروں کو من وعن کوئی صاحب اپنے نام سے پیش کرتے رہے ہیں بلکہ
اِس سے بھی ایک قدم آگے میری وہ سیریل جو ابھی اِختتام پذیر بھی نہیں
ہُوئیں صاحبان نے اپنے نام سے وہ سلسلے آگے پیش کرنا شروع کر دئیے بِنا یہ
سُوچے کہ اگر دوران سیریل ہی عشرت اقبال وارثی صاحب کا بُلاوا (اِنتقال)
آگیا تُو وہ کس طرح اِن سلسلوں کو آگے چَلا پائیں گے۔
لیکن آپ کو یہ جان کر شائد حِیرت ہُو کہ باوجود علم رکھنے کہ بھی ہَم نے
کبھی کِسی فورم یا سائٹ پر رَنگ میں بھنگ نہیں ڈالا اور وجہ صِرف اتنی ہے
کہ میں سمجھتا ہُوں کہ علم پر سب کا حَق ہے اور چُونکہ میرے ہر کالم میں
کوئی نہ کوئی قارئین کیلئے میسج ضرور ہُوتا ہے اگرچہ مجھے یہ بھی معلوم ہے
کہ میرا میسج شائد سب کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن مجھے یہ بھی خَبر ہے کہ
میرے مضامین پر لوگ آپس میں بحث بھی کرتے ہیں اور نتائج بھی اَخذ کرتے ہیں
سُو جب تک ایسے قارئین موجود ہیں میں لکھتا رَہوں گا اور کاپی پیسٹ والوں
کا کام بھی چلتا رہے گا کیونکہ میری کسی تحریر کے ،، جُملہ حُقوق محفوظ
نہیں ہیں ،، اسلئے سب کو دعوتِ عام ہے جو چاہے یہاں سے میرے کالموں یا
سیریلز کو اپنے نام سے پیش کرے میں کبھی تعرض نہیں کروں گا۔
لیکن اِتنا ضرور یاد رکھیئے کہ اس طرح آپکی صلاحیتوں کو زَنگ لگتا جائے گا
اگر آپ کوشش کریں تُو بُہت اَچھوتے خَیال اور نادِر روزگار مَضامین آپ خُود
بھی لکھ سکتے ہیں کیونکہ عشرت اقبال وارثی بھی دو سال قبل تک رائیٹر نہیں
تھا کہانی اور مضامین تو رہے ایک طرف ایک خط لکھنا بھی جسکے لئے مشکل تھا
وہ سینکڑوں لوگوں کی نظر میں اُنکا محبوب رائٹر بن گیا میں چاہتا تو میں
بھی لوگوں کی تحریروں کو اپنے نام سے پیش کرسکتا تھا لیکن اسطرح میرے
مضامین کی تعداد میں ضرور اِضافہ ہوجاتا لیکن یہ عزت یہ مان کبھی حاصل نہیں
کر پاتا جو آج مُجھے حاصل ہے۔
میری جانب سے حالانکہ آپکو استثنا حاصِل ہے لیکن خُدارا اپنی صلاحِیتوں کو
پہچانئے اور کاپی پیسٹ کی کاہلی اور سُستی کی دُنیا سے نِکل کر اپنی پہچان
بنائیے تاکہ لوگ آپکو چُور نہیں بلکہ ایک رائیٹر کے طور پر پہچان سکیں ویسے
بھی دُنیا مکافاتِ عمل کا نام ہے اگر آپ نے آج کسی کے حَق پر ڈاکہ ڈالا تو
جان لیجئے اسطرح آپ نے کسی اور کو اپنے گھر کا رستہ بھی دِکھا دِیا ہے اگر
کوئی تحریر پسند آجائے تو اُسے ضرور آگے بڑھائیں لیکن کم از کم اجازت لیکر
یا کم از کم جسکی مِحنت ہے اُسکا چھوٹا سا نام تحریر کے آخر میں ڈال دیجئے۔
یہ تحریر لکھتے ہُوئے خُدا گواہ ہے کِسی کی دِل شکنی مقصود نہیں پھر بھی
کِسی بھائی یا بِہن کو میرے جُملوں سے ٹھیس پُہنچی ہو تو مجھے مُعاف فرما
دیجئے گا کیونکہ نیت اِصلاح کی تھی لفظوں کے ذریعہ دِل دُکھانے کی ہرگز
نہیں میرے مضامین کے تُو ویسے بھی ،، جُملہ حُقوق محفوظ نہیں ہیں ،، لیکن
دوسروں کا خیال ضرور رکھئے ضروری نہیں کہ اُنکا برتاؤ بھی اَتنی کُشادہ
دَلی کیساتھ ہُو اور اُنکے مضامیں کے بھی جُملہ حِقوق مَحفوظ نہ ہُوں۔ |