پرانے زمانے میں جب انسان ترقی سے کوسوں دور پتھروں کے
دور سے گزر رہاتھا معلومات کے تبادلے کے لیے مسافروں سے کام لیا جاتا تھا ۔
جب کوئی قافلہ عازم سفر ہوتا تو شہر میں منادی ہوجاتی تھی اور لوگ قافلے کی
راہ میں آنے والے علاقے میں موجود اپنے کسی دوست ، رشتہ دار کے لیے خط لکھ
دیتے یا زبانی پیغام دے دیا کرتے ۔ یہ منادی بھی بڑی دلچسپ انداز میں ہو
اکرتی تھی اونٹ پر دائیں بائیں دو ڈھول رکھ کر ایک شخص بجاتا جاتا تھا اور
شہر کے ہر چوک چوراہے پر صدا لگاتا جاتا تھا ۔ بریکنگ نیوز دینی ہوتی تھی
تو اونٹ کے کان اور کوہان کاٹ دی جاتی تھی اور ڈھول کی تاپ کے ساتھ ساتھ
اونٹ کی چنگھاڑ میں پورے شہر میں گونجتی تھی اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب
مبذول کراتی تھی ۔ جب کوئی قافلہ کسی شہر میں آکر ٹہرتا تھا شہر کے بڑے
بوڑھے رات گئے قافلہ والوں کے پاس جا بیٹھا کرتے ۔ دیسی مشروبات کے ساتھ
ساتھ ملکوں ملکوں کے حالات معلوم کیے جاتے ۔
یوں ایک علاقہ کی خبریں دوسرے علاقے تک پہنچ جاتیں پر اس میں دو بڑی
خرابیاں تھیں ایک تو یہ کہ سینہ بسینہ منتقل ہونے کی وجہ سے بات کا بتنگڑ
بن جاتا کوئی اتنی مختصر خبر سناتا کہ بہت سی بنیادی باتیں حذف کردیتا اور
کوئی اس قدر مرچ مصالحہ لگاتا کہ لوگوں کو یقین کرنا مشکل ہوجاتا۔ دوسری
خرابی یہ تھی کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک اطلاع پہنچتے پہنچتے عرصہ بیت
جاتا جس کی وجہ سے وہ خبر محض ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی ۔ رفتہ
رفتہ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ پہلی خرابی کا تو حل یہ تلاش کیا گیا کہ
خبریں لکھیں جانے لگیں ۔
اہل علم اور اہل اقتدار نے اہم واقعات لکھوانے شروع کیے اور دیوان مرتب
ہونے لگے ۔ لیکن یہ دیوان بھی ایک تاریخی دستاویز سے زیادہ اہمیت نہ رکھتے
تھے ۔وقت کا پہیہ اپنی مخصوص رفتار سے گردش کرتا رہا یہاں تک انسان نے کاغذ
بنانے کے کارخانے لگالیے اور کاغذ عام ہوا ۔ اور انسان نے اخبار بنالیا اور
پھر نیوز ایجنسیاں وجود میں آئیں اور اخبارات کے ذریعہ لوگ ملکوں ملکوں کے
احوال جاننے لگے لیکن معلومات کا یہ ذریعہ بھی بہت سست تھا ہمارے ہندوستان
میں ایک عرصہ تک ہفتوں پرانے انگریزی اخبارات سے ترجمہ کر کے عالمی خبریں
لگائی جاتی رہیں لیکن ٹیلفون کی ایجاد کے بعد روز کی خبر روز شائع ہونے لگی
۔ یہاں تک الیکٹرک میڈیا میدان میں کودا اور پھر ساری دنیا ایک برقی ڈبہ
میں سمٹ گئی ۔
یہ مختصر تاریخ تھی پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی پر اس میڈیا میں یہ نقص تھا
جو اب بھی موجود ہے یہ وہی دکھاتے ہیں جو ان کی پالیسی ہوتی ہے اور پچھلی
صدی تک تو الیکٹرونک میڈیا مکمل حکومتی کنٹرول میں تھا اور حکومت کی مرضی
کا ہی دکھاتا تھا نئی صدی کے ساتھ ہی میڈیا آزاد ہوا لیکن یہ آزادی ایک نئی
غلامی لے کر آئی اور وہ یہ کہ اب میڈیا کے اکثر اداروں نے اپنے اپنے ایجنڈے
بنالیے جو کہ اکثر ہی غیر ملکی امداد سے غذا یافتہ تھے یوں میڈیا نے قوم کو
حقیقت دکھانے کے بجائے ٹرک کی بتی کے پیچھلے لگائے رکھا گیا ۔
شائد یہ حالت یونہی رہتی اگر انٹرنیٹ عام نہ ہوتا اور اس پر ویب سائٹس کا
وجود نہ ہوتا ۔ لیکن انٹرنیٹ عام ہونے اور سوشل ویب سائٹ کے وجود نے دنیا
بھر کے انسانوں کا آپس میں رابطہ کرادیا ۔ سوشل میڈیا کی ابتدا یاہو کے چیٹ
رومز سے ہوئی اور بلاگر ، فیس بک ،ٹیوٹر انسٹاگر ، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام
جیسے کئی فورم کی شکل میں پھیلتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ہی انسان کو میڈیا
کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے سے نجات ملی ۔ اب دنیا کے کسی
کونے میں ہونے والے واقعہ کی حقیقت جاننا کوئی مشکل نہیں ۔ اب مشہور لوگ
بھی عوامی رابطہ کے لیے میڈیا کے محتاج نہیں سوشل میڈیا نے اب ہر انسان کو
دوسرے انسان سے قریب کردیا ہے
۔ سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی میں جب فوج
نے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کی اور مارشل لا لگانے کی کوشش کی تو طیب
اردگان کے صرف ایک ٹوئیٹ پر ترکی عوام نے سڑکوں پر نکل کر فوج کو واپس
بیرکوں میں دھکیل دیا ۔ یہ ایک واقعہ سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل
میڈیا کتنی اہمیت اختیار کیا گیا ۔ دنیا میں پائی جانے والی ہر چیز کی طرح
سوشل میڈیا میں خوبیوں اور خامیوں کا مرقعہ ہے سوشل میڈیا کی خوبیوں میں
انسانوں کا ایک دوسرے سے قریب ہونا نفرتوں کا ختم ہونا کاروبار کا پھیل
جانا ،گھر بیٹھے بزنس کرنا ، دنیا جہاں کی معلومات کا چند منٹوں میں حاصل
ہوجانا ،اپنے پسندیدہ لوگوں کے حالات سے باخبر رکھنا جیسے امور شامل ہیں
وہیں سوشل میڈیا کی خامیاں بھی بے شمار ہیں جن میں سرفہرست وقت کا برباد
ہونا، قریب موجود اپنے عزیز اور رشتہ داروں سے لاپرواہ ہونا، خود نمائی کا
غلبہ،جعل سازی اور فراڈ کا بڑھ جانا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج لوگوں کو سوشل میڈیا کا درست ،مثبت اور محفوظ
استعمال سکھایا جائے تاکہ سوشل میڈیا معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ
بنے اور لوگ دھوکہ اور فراڈ سے بچ سکیں ۔ بے شک وقت کے ساتھ چلنے میں ہی
قوموں کی زندگی ہے جو قوم وقت کا ساتھ نہیں دیتی مغلوب ہوجاتی ہے اس مضمون
کی توسط سے میری تمام قارئین سے درخواست ہے وہ خود بھی سوشل میڈیا کا درست
استعمال سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں کیوں کہ بچے یہ چیز ہم سے
زیادہ استعمال کر رہے ہیں ، اگر ہم نے منع کریں گے تو وہ خفیہ استعمال کریں
گے جو مزید خرابیوں کا سبب بنے گا اس سے بہتر ہے کہ ہم انہیں سوشل میڈیا کا
درست استعمال سکھا کر اپنی نظروں میں رکھیں ۔
|