گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ صوبہ خیبر پختون خوا کے مشیر
برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم ضیاء اﷲ بنگش نے بتایا کہ صوبائی حکومت جلد
سرکاری سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اُن کا مزید
کہنا تھا کہ صوبائی حکومت معیاری تعلیم کو یقینی بنانے میں انتہائی سنجیدہ
ہے۔ اس بیان میں تعلیم سے متعلق دو پہلو ؤں پر بات کی گئی ہے۔ پہلا پہلو
مقدار اور جب کہ دوسرا پہلو معیار سے متعلق ہے۔ راقم الحروف اس تحریر میں
بیان کے پہلے پہلو کا تفصیلی جائزہ پیش کر نا چاہتا ہے۔ موصوف کے اس بیان
سے واضح ہوتا ہے کہ صوبے میں تعلیمی اداروں کی کمی پائی جارہی ہے جس کے لئے
سکول کی عمارت کو سیکنڈ شفٹ کے لئے استعمال کیا جائے گا جو کہ ایک مستحسن
اقدام ہے۔ تعلیمی وسائل کی اگر بات کی جائے تو یہ انسانی ، مالی ، مشینری
اور میٹریل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سیکنڈ شفٹ سکولوں کے لئے سرکاری سکولوں کی
عمارتوں ( میٹریل ) اور اُن کی لیبارٹریوں ( مشینری ) کو استعمال میں لایا
جا سکتا ہے جب کہ انسانی و مالی وسائل اس پروجیکٹ کی راہ میں رکاؤٹ بن سکتے
ہیں۔ یاد رہے کہ جنوبی پنجاب میں اعلیٰ ثانوی تعلیمی اداروں میں شام کی
کلاسسز کا آغاز اگست 2017 ء میں کیا گیا تھا لیکن وہ تدریسی اور دیگر عملے
کے لئے فنڈز مہیا نہ کیے جانے کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اسی طرح سرکاری سکولوں
میں سیکنڈ شفٹ شروع کرنے کا فیصلہ اس وعدے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ہر سکول
کو چلانے کے لئے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ماہانہ دیئے جائیں گے لیکن مالی
وسائل کی کمی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔ اگر ہم صوبہ خیبر پختون خوا کی
بات کریں تو گزشتہ برس انہوں نے مختلف اضلاع میں کم تعداد رکھنے والے
سکولوں کو بند کیا تھا۔ اس اقدام کو ماہرین تعلیم اور والدین نے سخت تنقید
کا نشانہ بنایا تھا کیوں کہ قریبی سکولوں کی بندش سے طالب علموں کو دور
دراز دوسرے سکولوں تک کئی کئی کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ نتیجتاً کم
مالی استعداد والے والدین نے اپنے بچوں کو مزید تعلیم کے حصول سے روک دیا
تھا۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے سکولوں کی بندش تھی تو
دوسری جانب سکولوں میں داخلہ مہم بھرپور انداز میں شروع کی گئی تھی ۔ توقع
یہی تھی کہ سکول سے باہر بچے داخلہ لے کر زیور تعلیم سے آراستہ ہوں گے ۔ اس
کے علاوہ صوبائی حکومت کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ لوگوں کا اعتماد سرکاری
سکولوں پر بڑھ گیا ہے اور جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی
اداروں سے نکال کر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروا رہے ہیں۔ اس تناظر
میں دیکھا جائے تو وزیر موصوف کا سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کرنے کا بیان
ذومعنی لگتا ہے۔ اس سلسلے میں ضلعی ایجوکیشن دفاتر کا کردار نہایت اہم ہوگا
جن کی معاونت کے لئے ای ایم آئی ایس کا عملہ بھی موجود ہے۔ ای ایم آئی ایس
کے ڈیٹا بیس میں سکول کی عمارت کی تفصیلات سمیت اساتذہ و طلباء کی تعداد ،
فرنیچر اور دیگر تمام مادی و غیر مادی وسائل کا اَپ ڈیٹ ڈیٹا موجود ہے۔
صوبائی ڈیٹا بیس کی مدد سے بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں
کون سے اضلاع میں کسی شرح سے سکولوں کی انرولمنٹ میں اضافہ ہوا ہے اور کن
اضلاع ، تحصیلوں اور یونین کونسلوں میں سیکنڈ شفٹ سکولوں کی اشد ضرورت ہے۔
ماضی میں صوبہ خیبر پختون خوا کے اندر پی پی سی ( سرکاری و نجی اشتراک ) کے
تحت سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو بطور سیکنڈ شفٹ استعمال کیا گیا ہے لیکن
اُن کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جن کی توقع کی جارہی تھی۔ اس پروجیکٹ کے
تحت سرکاری سکولوں کی عمارتوں میں اعلیٰ ثانوی تعلیم کی کلاسسز ایوننگ شفٹ
میں شروع کی گئیں۔ اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ
پی پی سی اور پنجاب میں سیکنڈ شفٹ سکولوں کے تجربات سے استفادہ حاصل کرکے
اپنے اس پروجیکٹ کو شروع کریں ۔
جیسا کہ راقم الحروف نے اپنی تحریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ سیکنڈ شفٹ
پروجیکٹ میں ضلعی تعلیمی دفاتر کا کردار نہایت اہم ہوگا کیوں کہ ماضی میں
اُن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کیے جا سکے جن کی
توقع تھی۔اس میں سب بڑی خامی اُن کے نگرانی کے نظام میں تھی۔ انہوں نے نجی
شراکت داروں سے معاہدے تو کیے لیکن چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع نہیں کیا۔
جن کی کارکردگی یا جن سے آمدن مطلوبہ ہدف سے کم تھی تو اُن سے شراکت داری
منسوخ کی جاسکتی تھی۔ اَب جب کہ صوبائی حکومت سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع
کرنے کا ارداہ رکھتی ہے تو اُن کو درج ذیل باتوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
اول ، جن سرکاری سکولوں میں پی پی سی کے تحت سیکنڈ شفٹ میں کالج کام کر رہے
ہیں اور اُن کے پاس طلباء کی تعداد کسی بھی فیکلٹی میں بیس سے کم ہے تو اُن
کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ منسوخ کرے۔ طلباء کے تعلیمی زیاں کو بچانے کے
لئے اُن کو سرکاری کالجوں میں منتقل کیا جائے۔ دوم ، ماضی کے تلخ نتائج کو
مد نظر رکھتے ہوئے اس بار نجی شراکت دار ی سے گریز کیا جائے۔ سوم ، محکمہ
تعلیم سے ریٹائرڈ افسران اور اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں اور اُن کے
وسیع تجربے سے استفادہ اُٹھایا جائے۔ چہارم ، اگر اساتذہ کی کمی ہو تو این
ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں۔ یوں سیکنڈ شفٹ پروجیکٹ سے ملازمت کے
مواقع پیدا ہوں گے۔ یاد رہے کہ خیبر پختون خوا حکومت نے گزشتہ پانچ برسوں
میں پچاس ہزار سے زائد اساتذہ کو این ٹی ایس کے ذریعے میرٹ کی بنیادوں پر
بھرتی کیا ہے۔ پنجم ، آمدن کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کے ایک بڑے حصے کو
غیر ترقیاتی فنڈ تصور کیا جائے جن سے اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں
پوری کی جائیں۔ نیز سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کے لئے باقاعدہ تعلیمی بجٹ میں
رقم مختص کی جائے تا کہ تدریسی عمل میں کوئی رکاؤٹ پیدا نہ ہو۔ ششم ، طالب
علموں سے داخلے کے وقت یہ تحریر بیان لیا جائے کہ اگر طلباء کی تعداد ایک
جماعت کے لئے مقررہ تعداد سے کم ہوئی تو اُن کو دیگر سکولوں میں منتقل کیا
جائے گا۔
اُمیدِ قوی ہے کہ سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کے لئے موجودہ حکومت بہترین ہوم ورک
کرے گی تاکہ تعلیمی اداروں کی کمی کا مسئلہ پائیدار بنیادوں پر حل ہو سکے ۔
نیز تعلیم کی بدولت ملت کو لاحق امراض دور ہوں گے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ
محمد اقبال۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ِ ملت کی دوا
ہے خون ِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نشیتر |